حدیث میں ہے کہ خواب کی تین قسمیں ہیں۔ اپنے دل کی بات، شیطان کا ڈر اوا اور خداکی بشارت۔ عام آدمی کا خواب تینوں میں سے کوئی بھی ہوسکتا ہے۔ مگر پیغمبر کا خواب ہمیشہ خدا کی بشارت ہوتاہے، کبھی راست انداز میں اور کبھی تمثیلی انداز میں۔
حضرت یوسف کا زمانہ انیسویں صدی قبل مسیح کا زمانہ ہے۔ آپ کے والد حضرت یعقوب فلسطین میں رہتے تھے۔ حضرت یوسف اور ان کے بھائی بن یامین ایک ماں سے تھے اوربقیہ دس بھائی دوسری ماؤں سے۔ اس خواب میں سورج اور چاند سے مراد آپ کے والدین ہیں اور گیارہ ستاروں سے مراد گیارہ بھائی۔ اس میں یہ بشارت تھی کہ حضرت یوسف کو پیغمبری ملے گی اور اسی کے ساتھ یہ خواب آپ کے اس عروج واقتدار کی تمثیل تھا جو بعد کو مصر پہنچ کر آپ کو ملا اور جس کے بعد سارے اہل خاندان مجبور ہوئے کہ وہ آپ کی عظمت کو تسلیم کرلیں۔
حضرت یوسف کے دس سوتیلے بھائی آپ کی شخصیت اور مقبولیت کو دیکھ کر آپ سے حسد رکھتے تھے۔ اس لیے آپ کے والد (حضرت یعقوب) نے خواب سن کر فوراً کہا کہ اپنے بھائیوں سے اس کا ذکر نہ کرنا ورنہ وہ تمھارے اور زیادہ دشمن ہوجائیںگے۔
کسی کی بڑائی دیکھ کر اس کے خلاف جلن پیدا ہونا خالص شیطانی فعل ہے۔ جس شخص کے اندر یہ صفت پائی جائے اس کو اپنے بارے میں توبہ کرنی چاہیے۔ کیوں کہ یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ خداکے فیصلہ پر راضی نہیں۔ وہ شیطان کی ہدایت پر چل رہا ہے، نہ کہ خدا کی ہدایت پر۔
یہاںاتمام نعمت کا لفظ حضرت یوسف کے لیے بھی بولا گیا ہے جن کو حکومت حاصل ہوئی اور حضرت ابراہیم کے لیے بھی جن کو کوئی حکومت نہیں ملی۔ پھر دونوں کے درمیان وہ مشترک چیز کیا تھی جس کو اتمام نعمت کہاگیا ہے۔ وہ نبوت تھی۔ یعنی خدا کی اس خصوصی ہدایت کی توفیق جو کسی کو آخرت میں اعلیٰ مراتب تک پہنچانے والی ہے۔ خدا کی ہدایت انسان کے اوپر خدا کی نعمتوں کی تکمیل ہے۔ یہ نعمت پیغمبروں کو براہِ راست طور پر ملتی ہے اور عام صالحین کو بالواسطہ طور پر۔
0%