اس خواب کے وقت حضرت یوسف ابھی بچے تھے یا مراہق۔ لیکن یہ خواب جو انہوں نے اپنے باپ کے سامنے بیان کیا یہ بچوں یا نوجوانوں کا خواب نہ تھا ، بچے اور نوجوان بچوں جیسے خواب دیکھتے ہیں یا وہ ایسے خواب دیکھتے ہیں جن کے بارے میں وہ کوئی سوچ رکھتے ہوں ، مثلاً یہ کہ سورج اور چاند ان کے ہاتھ میں ہوں اور یہ کہ اس نے انہیں پکڑ لیا ہو۔ لیکن یوسف نے دیکھا کہ شمس و قمر ایک عاقل شخص کی ان کے سامنے سجدہ ریز ہیں اور ستارے بھی ان کے سامنے سر جھکائے ہیں۔ یہ سجدہ تعظیم تھا۔ قرآن کریم نہایت ہی وضاحت سے اس بات کو یوں نقل کرتا ہے۔
اِذْ قَالَ يُوْسُفُ لِاَبِيْهِ يٰٓاَبَتِ اِنِّىْ رَاَيْتُ اَحَدَ عَشَرَ كَوْكَبًا وَّالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ رَاَيْتُهُمْ لِيْ سٰجِدِيْنَ : " یہ اس وقت کا ذکر ہے جب یوسف نے اپنے باپ سے کہا اباجان میں نے خواب میں دیکھا ہے کہ گیا ستارے ہیں اور سورج اور چاند ہیں اور وہ مجھے سجدہ کر رہے ہیں "
اس آیت میں لفظ روئیت کا اعادہ بطور تاکید ہے۔ غرض حضرت یعقوب نے خواب کو سن کر معلوم کرلیا کہ یہ خواب بچوں کا خواب نہٰں ہے اور حضرت یوسف کا مستقبل تابناک ہے۔ یہ تعبیر ان کے شعور نبوت نے ان کو بتا دی تھی لیکن انہوں نے اس کا اظہار نہ کیا اور نہ قصے میں تعبیر کو بیان کیا گیا۔ یہاں تک اس خواب کے آثار بھی قصے کی دو کڑیوں کے پڑھنے کے بعد ہی قارئین پا سکتے ہیں۔ رہا پورا خوب تو وہ قارئین کو پورا قصہ پڑھ لینے کے بعد ہی معلوم ہوتا ہے۔ خواب چونکہ اہم تھا اس لیے انہوں نے یوسف (علیہ السلام) کو نصیحت کی کہ وہ اس خواب کا اظہار اپنے بھائیوں کے سامنے نہ کریں ، ہوسکتا ہے کہ وہ سمجھ جائیں کہ اس بچے کا مستقبل تو غیر معمولی ہے۔ کیونکہ حضرت یوسف ان کے چھوٹے بھائی تو تھے لیکن سگے نہ تھے۔ حضرت یعقوب کے شعور نبوت نے یہ خطرہ محسوس کرلیا کہ شیطان کہیں ان کے بھائیوں کے درمیان عداوت حسد اور دشمنی پیدا نہ کردے۔ اور وہ ایک دوسرے کو نقصان نہ پہنچا دیں۔
0%