نوجوان قیدیوں نے اپنے خواب کی تعبیر جاننے کے لیے حضرت یوسف سے رجوع کیا۔ انھوں نے جس انداز سے سوال کیا اس سے صاف ظاہر ہو رہا تھا کہ وہ آ پ کی شخصیت سے متاثر ہیں۔ اور آپ کی رائے پر اعتماد کرتے ہیں۔ حضرت یوسف جیسے نیک اور بااصول انسان کے ساتھ ایک عرصہ تک رہنے کے بعد ایسا ہونا بالکل فطری تھا۔
حضرت یوسف کے دعوتی جذبے نے فوراً محسوس کرلیا کہ یہ بہترین موقع ہے کہ ان نوجوانوں کو دینِ حق کا پیغام پہنچایا جائے۔ مگر خواب کی تعبیر فوراً بتادینے کے بعد ان کی توجہ آپ کی طرف سے ہٹ جاتی۔ چنانچہ آپ نے حکیمانہ انداز اختیار کیا اور خواب کی تعبیر کو تھوڑی دیر کے لیے مؤخر کردیا۔ اس کے بعد آپ نے توحید پر مختصر تقریر کی۔ اس میں مخاطب کی نفسیات کی رعایت کرتے ہوئے نہایت خوب صورت استدلال کے ساتھ اپنا پیغام انھیں سنادیا۔
درخت، پتھر، ستارے یا ارواح وغیرہ کو جو لوگ پوجتے ہیں اس کا راز یہ ہے کہ وہ بطور خود ان کو مشکل کشا اور حاجت روا جیسے القاب دیتے ہیں اور سمجھ لیتے ہیں کہ واقعۃً وہ مشکل کشا اور حاجت روا ہیں۔ حالاں کہ یہ سب انسان کے اپنے بنائے ہوئے اسم ہیں جن کا مسمی خارج میں کہیں موجود نہیں۔