undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
3

حضرت یوسف (علیہ السلام) نے اپنے ان نہایت ہی مختصر ، واضح اور فیصلہ کن کلمات کے اندر دین اسلام کے پورے نشانات راہ نقش کرکے رکھ دیے ہیں۔ اس دین کے پورے عناصر ترکیبی بیان کردیے گئے ہیں۔ حضرت یوسف ان نشانات اور ان عناصر کی براہ راست دعوت نہیں دیتے بلکہ ان کو ایک موضوع غور و فکر کے طور پر ان کے سامنے رکھتے ہیں۔

يٰصَاحِبَيِ السِّجْنِ ءَاَرْبَابٌ مُّتَفَرِّقُوْنَ خَيْرٌ اَمِ اللّٰهُ الْوَاحِدُ الْقَهَّارُ : " اے زندان کے ساتھیو ، تم خود ہی سوچو کہ بہت سے متفرق رب بہتر ہیں یا وہ ایک اللہ جو سب پر غالب ہے ؟ "

یہ ایک ایسا سوال ہے کہ براہ راست انسانی فطرت کی گہرائیوں میں لگتا ہے اور فطرت انسانی کو خوب جھنجھوڑتا ہے۔ انسانی فطرت کا یہ تقاضا ہے کہ الہ ایک ہونا چاہیے۔ اگر تم محسوس کرتے ہو کہ یہ فطرت کا تقاضا ہے تو پھر کیوں تم ارباب متفرقون کے قائل ہو ، یعنی جو ذات اس بات کی مستحق ہے کہ اسے رب اور حاکم تسلیم کیا جائے ، جس کی عبادت اور بندگی کی جائے اور جس کی اطاعت کی جاتی رہے۔ وہ صرف اللہ واحد اور قہار ہی ہے۔ اگر ہم اس بات کو تسلیم کرلیں کہ انسانی فطرت اور عالم کی فطرت کا الہ اور رب اللہ وحدہ ہے تو اس کا لازمی تقاضا یہ ہے کہ انسان کی اخیتار زندگی میں رب ، حکم اور شارع وہی اللہ وحدہ ہو۔ اور یہ ممکن نہیں ہے کہ لوگوں کو یہ معلوم ہوجائے کہ اللہ وحدہ ہی خالق اور قہر ہے اور پھر بھی وہ غیر اللہ کی بندگی اور اطاعت کریں۔ اور اس کے سوا پھر کوئی ان کا حاکم ہو۔ رب ہی الہ اور حاکم ہوتا ہے۔ وہ اس پوری کائنات کے امور کو بھی چلاتا ہے اور یہ ممکن نہیں ہے کہ ایک ذات کائنات کو نہ چلا سکتی ہو اور وہ ھو رب الناس ہو یہ عقلاً ممکن نہیں ہے۔

لہذا اللہ واحد اور قہار ہی اس بات کا مستحق ہے اور بہتر ہے کہ لوگ اس کی بندگی کریں۔ بجائے اس کے کہ وہ ارباب متفرقہ کی بندگی کریں جن کو اندھی جاہلیت نے گھڑ رکھا ، جس کی نظر کوتاہ ہوتی ہے اور وہ فریب کے سوا کچھ بھی دیکھ نہیں سکتے انسانیت کے لیے سب سے بڑی بدبختی ہی یہ ہے کہ وہ ایک الہ کے بجائے متعدد الہوں کو مانے اور یہ متعدد الٰہ اس کی زندگی کو ٹکڑے ٹکڑے کردیں۔ ان کے رجحانات اور میلانات کے اندر بھی کشمکش ہو اللہ کے سوا جس قدر ارباب ہم نے بنا رکھے ہیں یہ در اصل اللہ تعالیٰ کے حق حاکمیت پر دست درازی کرتے ہیں اور ہم نے اپنی جاہلیت کی وجہ سے ، وہم پرستی کی وجہ سے خرافات اور قصے کہانیوں کی وجہ سے ان ارباب من دون اللہ کو رب تسلیم کر رکھا ہے۔ یا بعض جبار وقہار انسانی الٰہوں نے اپنی ربوبیت کا نظام لوگوں پر جبراً مسلط کر رکھا ہے۔ اور یہ انسانی ارباب ایک منٹ کے لیے بھی اپنے ذاتی مفادات ، اپنے وجود اور اپھنی عزت کی بقا کے جذبات اور خواہشات سے علیحدہ نہیں ہوسکتے۔ اور ان کے دلوں میں یہ خواہش کوٹ کوٹ کر بھری ہوتی ہے کہ عوام الناس پر ان کا تسلط جاری اور باقی رہے۔ ایسے الٰہوں کی پالیسی اور دائمی پالیسی یہ ہوتی ہے کہ یہ لوگ ان قوتوں کو کچل کر رکھ دیتے جن سے انہیں براہ راست یا بالواسطہ کوئی بھی خوف ہو۔ نیز الٰہ ان قوتوں کو ہمیشہ زندہ رکھتے ہیں ان کی پرورش کرتے ہیں اور ان کے حق میں پروپیگنڈہ کرتے جو ان کی خدائی کے قیام اور بقا میں ممد و معاون ہوتی ہیں۔ یہ الٰہ ایسے تمام اداروں کی ترقی اور عزت افزائی کے لیے ہر وقت کوشاں رہتے ہیں۔

جبکہ اللہ واحد اور قہار ہے اور وہ دونوں جہاد سے غنی ہے۔ اللہ کا مطالبہ لوگوں سے صرف یہ ہے کہ وہ اللہ سے ڈریں ، نیکی کی راہ لیں اور اپنی اصلاح اور اپنے ماحول کی اصلاح و تعمیر کریں اور یہ اصلاح اور تعمیری کام اللہ کی قائم کردہ شریعت کے مطابق ہو۔ اگر وہ ایسا کریں گے تو ان کا کام بھی پورے کا پورا عبادت ہوگا۔ اللہ نے جو عبادات انسانوں کے لیے فرض کی ہیں وہ بھی ایسی ہیں جن سے خود انسانوں کے دل و دماغ اور سیرت و کردار کی اصلاح مطلوب ہے۔ ورنہ اللہ کو تو انسانوں کی طرف سے کسی عبادت اور بندگی کی ضرورت نہیں ہے۔

یا ایہا الناس انتم الفقراء الی اللہ واللہ ھو الغنی الحمدی " اے لوگو تم اللہ کی طرف محتاج ہو اور صرف اللہ ہی غنی اور حمید ہے۔ اس لیے اللہ کی بندگی اور غلامی اور اللہ کے دوسرے الٰہوں کی بندگی اور غلامی میں بہت فرق ہے۔