نشانات کفر بتانے کے بعد یوسف (علیہ السلام) ان نوجوانوں کے سامنے نشانات ایمان بھی رکھتے ہیں ، جن پر وہ اور ان کے آباء چل رہے ہیں۔
میں نے اپنے بزرگوں ابراہیم ، اسحاق ، اور یعقوب کا طریقہ اختیار کیا ہے۔ ہمارا یہ کام نہیں ہے کہ اللہ کے سوا کسی کو شریک ٹھہرائیں۔
ملت اسلامیہ مکمل توحید کی ملت ہے ، اور اس میں اللہ کے ساتھ شرک کا شائبہ تک موجود نہیں ہے۔ توحید کی طرف ہدایت کرنا اللہ کی طرف سے فضل و کرم ہے۔ اور یہ فضل و کرم اس قدر عام ہے کہ ہر شخص اس کو قبول کرسکتا ہے اور حاصل کرسکتا ہے۔ کیونکہ اس کا رجحان اور اس کے اصول انسان کی فطرت کے اندر موجود ہیں۔ اور اس کے اشارات اور براہین انسانی ماحول کے اندر بھی موجود ہیں۔ رسولوں کی ہدایات اور کتب سماوی میں اس کی تعلیمات بھی موجود ہیں لیکن لوگوں کی حالت یہ ہے کہ وہ اس عمومی فضل و کرم سے اپنے آپ کو محروم رکھ رہے ہیں۔ ذٰلِكَ مِنْ فَضْلِ اللّٰهِ عَلَيْنَا وَعَلَي النَّاسِ وَلٰكِنَّ اَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَشْكُرُوْنَ : در حقیقت یہ اللہ کا فضل ہے ہم پر اور تمام انسانوں پر (کہ اس نے اپنے سوا کسی کا بندہ ہمیں نہیں بنایا) مگر اکثر لوگ شکر نہیں کرتے۔
حضرت یوسف آہستہ آہستہ ان کے دلوں میں اپنی بات اتار رہے ہیں ، نہایت ہی احتیاط کے ساتھ ، نہایت نرمی کے ساتھ۔ ان کے دلوں میں بات کو بٹھاتے چلے جاتے ہیں اور اپنے عقائد و نظریات کا اظہار آہستہ آہستہ کرتے چلے جاتے ہیں۔ اور ساتھ یہ بھی واضح کرتے چلے جاتے ہیں کہ تمہارے اور تمہاری قوم کے عقائد و نظریات غلط ، فاسد اور باطل ہیں۔ اور اس کے نتیجے میں وہ سوسائٹی ایک فاسد سوسائٹی ہے جس میں وہ رہ رہے ہیں۔ اس طویل تمہید کے بعد حضرت یوسف اصل بات کہتے ہیں۔