اسے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت یوسف کی بات کس قدر دل نشین ہے اور وہ بات سے کس طرح بات نکالتے چلے جاتے ہیں اور کس قدر نرمی اور لطافت کے ساتھ بات کرتے ہیں۔ اس پورے قصے میں حضرت یوسف کی بات چیت کی یہ امتیازی خصوصیت ہے۔
قَالَ لَا يَاْتِيْكُمَا طَعَامٌ تُرْزَقٰنِهٖٓ اِلَّا نَبَّاْتُكُمَا بِتَاْوِيْـلِهٖ قَبْلَ اَنْ يَّاْتِيَكُمَا ۭ ذٰلِكُمَا مِمَّا عَلَّمَنِيْ رَبِّيْ : یوسف نے کہا یہاں جو کھانا تمہیں ملا کرتا ہے اس کے آنے سے پہلے میں تمہیں ان خوابوں کی تعبیر بتا دوں گا۔ یہ ان علوم میں سے ہے جو میرے رب نے مجھ عطا کیے ہیں۔
یہ تاکید اس بات کا اظہار کر رہی ہے کہ حضرت یوسف کو اس معاملے میں ایک خاص علم دیا گیا ہے کہ کھانے آنے سے قبل ہی وہ اپنے اس مخصوص علم کے ذریعے ان کو ان کے خوابوں کی تعبیر بتا دیں گے۔ اور یہ علم ان کو اس لیے دیا گیا تھا کہ اس دور میں خوابوں کی تعبیر کے فن نے کافی ترقی کی ہوئی تھی۔ یہ ان علوم میں سے ہے جو میرے رب نے مجھے عطا کیے ہیں۔ یہ الفاظ حضرت نے اس لیے استعمال کیے کہ ان لوگوں پر نفسیاتی اثر ہوجئے اور حضرت یوسف کی بات ان کے دل میں اتر جائے۔ اور وہ ان خوابوں کی تعبیر کی وجہ سے یوسف کی دعوت کو قبول کرلیں جبکہ یہ تعبیر نہایت ہی مخصوص انداز کی تھی۔
اِنِّىْ تَرَكْتُ مِلَّةَ قَوْمٍ لَّا يُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰهِ وَهُمْ بِالْاٰخِرَةِ هُمْ كٰفِرُوْنَ : " واقعہ یہ ہے کہ میں نے ان لوگوں کا طریقہ چھوڑ کر ، جو اللہ پر ایمان نہیں لاتے اور آخرت کا انکار کرتے ہیں "
یہ اشارہ اس قوم کی طرف بھی ہے جس میں ان کی تربیت ہوئی ، یعنی عزیز مصر کا گھرانا اور شاہ مصر کے حاشیہ نشین ، اور اس پوری قوم کی طرف بھی جو شاہ مصر کی مطیع فرمان تھی ، جبکہ یہ دونوں نوجوان ظاہر ہے کہ بادشاہ اور اپنی قوم ہی کے دین پر تھے لیکن حضرت یوسف ان کے ساتھ بات کرنے میں یہ نہیں فرماتے کہ میں نے تمہارا دین چھوڑ دیا ہے بلکہ ایک عام بات فرماتے ہیں تاکہ ان نوجوانوں کے دلوں میں دین اسلام سے نفرت پیدا نہ ہوجائے۔ یہ نہایت ہی دانشمندی اور اعلی درجے کی حکمت تبلیغ ہے اور نہایت ہی لطافت اور فراست کے ساتھ بات پہنچانے کا انداز ہے۔