اس نے ان عورتوں کو اپنے محل میں ایک دعوت میں بلایا ، اس دعوت سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ دعوت نہایت ہی ترقی یافتہ لوگوں کی دعوت تھی۔ ایسی ہی عورتوں کو محلات میں دعوتیں دی جاتی ہیں۔ اور نہایت ہی پر تکلف کھانے پیش کیے جاتے ہیں۔ یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اس وقت مشرقی روایات کے مطابق تکیہ لگا کر کھانا کھایا جاتا تھا۔ چناچہ اس نے کھانے کے لیے ایسی جگہ تیار کی جہاں یہ عورتیں تکیوں سے ٹیک لگا کر بیٹھی تھیں۔ پھر ہر ایک کو چھری دی گئی تاکہ وہ اس کے ساتھ کھانا کھائے۔ اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس دور میں مصر تہذیب و تمدن کے اعتبار سے بہت ہی آگے نکل گیا تھا اور محلات میں لوگ پر تعیش زندگی بسر کرتے تھے۔ کیونکہ ہزاروں سال قبل چھری کے استعمال کی اطلاع سے معلوم ہوتا ہے کہ مادی اور تمدنی لحاظ سے مصری معاشرہ بہت آگے نکل چکا تھا۔ یہ عورتیں گوشت اور میوے کاٹنے میں مشغول تھیں کہ عزیزہ نے یوسف کو حک دیا کہ ذرا سامنے آؤ۔
قالت اخرج علیھن " اس نے یوسف کو اشارہ کیا کہ ان کے سامنے نکل آ "۔
فلما راینہ اکبرنہ " جب ان عورتوں کی نگاہ اس پر پڑی تو وہ دنگ رہ گئیں " اس کو دیکھ کر مبہوت رہ گئیں اور ان پر دہشت طاری ہوگئی۔
و قطعن ایدیھن " اور اپنے ہاتھ کاٹ بیٹھیں " اچانک دہشت زدگی کی وجہ سے انہوں نے اپنے ہاتھ زخمی کردئیے۔
و قلن حاش للہ " اور بےساختہ پکار اٹھیں حاشا للہ " تخلیق قدرت پر حیراں ہوکر حاشا للہ کہا جاتا ہے۔ در اصل حاشا للہ کلمہ تنزیہ اس موقعہ پر بولا جاتا ہے جہاں کسی ذات سے کسی الزام کی شدت سے نفی کی جائے۔
ما ھذا بشرا ان ھذا الا ملک کریم " یہ شخص انسان نہیں ہے ، یہ تو کوئی بزرگ فرشتہ ہے " جیسا کہ ہم نے اس سورت کے دیباچے میں کہا ، ان تعبیرات سے معلوم ہوتا ہے کہ دین اسلام کے بعض تصورات مصری معاشرے میں پھیل چکے تھے۔
اب عزیز کی بیوی کو یقین ہوگیا کہ اس نے میدان مار لیا ہے ، اور اس کے خلاف باتیں بنانے والی عورتوں سے انتقام لے لیا ہے ، اور خود یہ عورتیں دہشت زدہ ، حیران بلکہ مبہوت ہو کر رہ گئی ہیں۔ اب یہ عورتوں کے سامنے کھل جاتی ہے اور اپنے جنسی سکینڈل کو عورتوں کے سامنے کھول کر بیان کرتی ہے اور کوئی شرم محسوس نہیں کرتی۔ اب وہ دھمکی آمیز لہجے میں اقرار کرتی ہے کہ اس شخص کو میری مرضی کے مطابق چلنا ہوگا ورنہ ۔۔ اب اس کی باتوں کا انداز اور ہے۔