حالات یہ ہیں کہ اس عورت اور اس کے اس غلام کے درمیان ابھی تک جدائی نہیں ہے۔ حالات روٹین کے مطابق آگے بڑھ رہے ہیں اور بڑے بڑے محلات میں حالات اسی طرح آگے بڑھتے رہتے ہیں۔ لیکن محلات کی دیواریں ہوتی ہیں اور دیواروں کے کان ہوتے ہیں۔ قدم اور چشم ان کے اندر ہوتے ہیں ، اندر جو کچھ ہوتا ہے ، وہ لازماً باہر آتا ہے ، خصوصا اونچے اور مراعات یافتہ طبقات کے محلات ہیں۔ ان محلات کے اندر جو کچھ ہوتا ہے وہ لوگوں کی مجالس ، محافل میں اور زبانوں پر ہوتا ہے۔ لوگوں کی راتوں کے لیے یہ چٹ پٹا مسالہ ہوتا ہے۔
شہر کی عورتیں آپس میں چرچا کرنے لگیں کہ عزیز کی بیوی اپنے نوجوان غلام کے پیچھے پڑی ہوئی ہے ، محبت نے اس کو بےقابو کر رکھا ہے ، ہمارے نزدیک تو وہ صریح غلطی کر رہی ہے۔
یہ کلام اور یہ چہ میگوئیاں بعینہ ایسی ہیں جیسا کہ ہر جاہلی دور میں موضوع سخن ہوتی ہیں۔ یہاں آ کر ہمیں پہلی مرتبہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ عورت عزیز مصر کی بیوی ہے اور یہ کہ حضرت یوسف کو مصر کے جس شخص نے خریدا تھا وہ عزیز مصر تھا ، یعنی مصر کا وزیر اعظم۔ اس شخص کے نام اور اس کی بیوی کے نام کو ابھی تک مجمل رکھا گیا تھا ، اب نام اس لیے لیا گیا کہ پورا مصر اس واقعہ سے خبردار ہوگیا ہے۔ وَقَالَ نِسْوَةٌ فِي الْمَدِيْنَةِ امْرَاَتُ الْعَزِيْزِ تُرَاوِدُ فَتٰىهَا عَنْ نَّفْسِهٖ ۚ قَدْ شَغَفَهَا حُبًّا ۭ اِنَّا لَنَرٰىهَا فِيْ ضَلٰلٍ مُّبِيْنٍ : شہر کی عورتیں آپس میں چرچا کرنے لگیں کہ عزیز کی بیوی اپنے نوجوان غلام کے پیچھے پڑی ہوئی ہے ، محبت نے اس کو بےقابو کر رکھا ہے ، ہمارے نزدیک تو وہ صریح غلطی کر رہی ہے۔
یعنی عورت کا حال یہ ہے کہ وہ اس کے پیچھے پڑی ہوئی ہے۔ عاشق زار بن گئی ہے۔ غلام کی محبت اس کے دل کے پردے میں اتر گئی ہے۔ شفاف اس پردے کو کہتے ہیں جس کے اندر دل لپٹا ہوا ہوتا ہے۔ لیکن یہ حرکت اس عورت کے لیے مناسب نہیں ہے کہ خاتون اول اور وزیر اعظم کی بیوی ہوتے ہوئے وہ عبرانی غلام پر عاشق ہوجائے جو زرخرید ہے (فتٰھا) کا ذکر اس لیے کیا گیا ہے کہ شاید اس جاہلی سوسائٹی میں فری سیکس اس قدر معیوب نہ تھا مگر عبرانی زرخرید غلام کے ساتھ زیادہ معیوب تھا۔
اب وہ بات وقوع پذیر ہوتی ہے ، جو ایسے ہی نام نہاد اونچے طبقات ہی میں وقوع پذیر ہوسکتی ہے۔ یہ خود سر عورت ایک دوسرا منظر پیش کرتی ہے۔ یہ جانتی ہے کہ مصری عورتوں کی مکاریوں اور پروپیگنڈے کا جواب وہ کس طرح دے گی۔ ذرا ملاحظہ ہوں اگلی آیات۔