You are reading a tafsir for the group of verses 12:25 to 12:29
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
3

حضرت یوسف اپنے آپ کو بچانے کے لیے دروازے کی طرف بھاگے۔ زلیخا بھی ان کے پیچھے دوڑی اور پیچھے سے آپ کا کرتا پکڑ لیا۔ کھینچ تان میں پیچھے کا دامن پھٹ گیا۔ تاہم حضرت یوسف دروزاہ کھول کر باہر نکلنے میں کامیاب ہوگئے۔ دروازہ کے باہر اتفاق سے زلیخا کا شوہر موجود تھا۔ اس کو دیکھتے ہی زلیخا نے سارا الزام حضرت یوسف پر ڈال دیا۔ ایک لمحہ پہلے وہ جس شخص سے اظہار محبت کررہی تھی، ایک لمحہ بعد اس پر جھوٹا الزام لگانے لگی۔

حضرت یوسف نے بتایا کہ معاملہ اس کے بالکل برعکس ہے۔ اب سوال یہ تھا کہ فیصلہ کیسے کیا جائے کہ غلطی کس کی ہے۔ کوئی تیسرا شخص موقع پر موجود نہیں تھا جو عینی گواہی دے۔ اس وقت گھر کے ایک مرد دانا نے لوگوں کو رہنمائی دی۔ اغلب ہے کہ یہ شخص پہلے حالات سے باخبر تھا۔ نیز اس نے یہ بھی دیکھ لیا تھا کہ یوسف کا کرتا آگے کے بجائے پیچھے کی طرف سے پھٹا ہوا ہے۔ مگر اس نے اپنی بات کو ایسے انداز میں کہا گویا کہ وہ لوگوں سے کہہ رہا ہے کہ جب عینی شہادت موجود نہیں ہے تو قرینہ کی شہادت (circumstantial evidence)دیکھ کر فیصلہ کرلو۔ اور قرینہ کی شہادت یہ تھی کہ حضرت یوسف کا کُرتا پیچھے کی جانب سے پھٹا ہوا تھا۔ یہ واضح طورپر اس کا ثبوت تھا کہ اس معاملہ میں اقدام زلیخا کی طرف سے ہوا ہے، نہ کہ یوسف کی طرف سے۔