You are reading a tafsir for the group of verses 12:23 to 12:24
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
3

عزیز مصر کی بیوی زلیخا حضرت یوسف پر فریفتہ ہوگئی۔ وہ بر ابر آپ کو پھسلاتی رہی۔ یہاں تک کہ ایک روز موقع پاکر اس نے کمرہ کا دروازہ بند کرلیا۔

ایک غیر شادی شدہ نوجوان کے لیے یہ بڑا نازک موقع تھا۔ مگر حضرت یوسف نے اپنی فطرت ربّانی کو محفوظ رکھا تھا اور یہ فطرت اس وقت حضرت یوسف کے کام آگئی۔ حق اور ناحق بھلائی اور برائی کو پہچاننے کی یہ طاقت ہر آدمی کے اندر پیدائشی طورپر موجود ہوتی ہے۔ وہ ہر موقع پر انسان کو متنبہ کرتی ہے۔ جو شخص اس کو نظر انداز کردے اس نے گویا خدا کی آواز کو نظر انداز کردیا۔ ایسا آدمی خدا کی مدد سے محروم ہو کر دھیرے دھیرے اپنی فطرت کو کمزور کرلیتاہے۔ اس کے برعکس جو شخص خدائی پکار کے ظاہر ہوتے ہی اس کے آگے جھک جائے، خدا کی مدد اس کی استعداد بڑھاتی رہتی ہے۔ وہ اس قابل ہوجاتا ہے کہ آئندہ زیادہ قوت کے ساتھ برائی کے مقابلہ میں ٹھہر سکے۔

حضرت یوسف کو جس چیز نے برائی سے روکا وہ حقیقۃً اللہ کا ڈر تھا۔ مگر زلیخا کے لیے خدا کا حوالہ دینا اس وقت بے اثر رہتا۔ یہ موقع اعلان حق کا نہیں تھا بلکہ ایک نازک صورت حال سے اپنے آپ کو بچانے کا تھا اسی نزاکت کی بنا پر آپ نے زلیخا کو اس کے شوہر کا حوالہ دیا۔ آپ نے فرمایا کہ وہ میرا آقا ہے۔ اس نے مجھے نہایت عزت کے ساتھ اپنے گھر میں رکھا ہے۔ پھر کیسے ممکن ہے کہ میں اپنے محسن کے ناموس پر حملہ کروں۔