You are reading a tafsir for the group of verses 12:19 to 12:20
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
3

اب ہم جلدی سے واپس ہوتے ہیں کہ اندھے کنوئیں میں یوسف (علیہ السلام) کس حال میں ہیں۔ اس طرح اس قصے کی پہلی کڑی ختم ہوتی ہے :

یہ اندھا کنواں شارع عام پر تھا ، شارع عام کے ارد گرد لوگ ہمیشہ پانی کی تلاش میں بوقت ضرورت نکلتے ہی رہتے ہیں۔ خصوصاً بارش کا پانی بھی ایسے کنوؤں میں جمع ہوجاتا ہے۔ بعض اوقات یہ کنواں خشک بھی ہوتا ہے۔

وجاءت سیارۃ " ادھر ایک قافلہ آیا " عربی میں قافلے کو سیارہ اس لیے کہتے ہیں کہ سیر کے معنی چلنے کے ہیں اور قافلہ بھی ایک طویل سفر پر ہوتا ہے ، اسے نشانہ حوالہ اور فنامہ بھی کہتے ہیں۔

فارسلوا واردھم " اور اس نے اپنے سقے کو پانی لانے کے لیے بھیاج " وارد بمعنی سقہ اسے وارد اس لیے کہتے ہیں کہ وہ پانی ان کی طرف لاتا ہے۔

فادلی دلو " سقے نے کنوئیں میں ڈول ڈالا " تاکہ وہ دیکھے کہ کنوئیں میں پانی ہے۔ اب یہاں سیاق کلام میں اس بات کو چھوڑ دیا جاتا ہے کہ حضرت یوسف ڈول کے ساتھ لٹک گئے کیونکہ یہ بات بالکل عیاں ہے اور یہاں قارئین کو ایک حیران کن صورت حال سے دوچار کرنا مطلوب ہے۔ یہ کسی بھی قصے کا فنی کمال ہوتا ہے۔

قال یبشری ھذا غلام۔ (یوسف کو دیکھ) مبارک ہو یہاں تو ایک لڑکا ہے۔ یہاں قصے کی مزید تفصیلات کو حذف کردیا جاتا ہے کہ یوسف کس قدر خوش ہوئے ، یا ان کے تاثرات و حالات کیا تھے ، صرف یوسف کے انجام کی طرف اشارہ آجاتا ہے۔

واسروہ بضاعۃ " ان لوگوں نے اس کو مال تجارت سمجھ کر چھپا لیا " انہوں نے اسے نہایت ہی خفیہ سامان تجارت سمجھا۔ ارادہ کرلیا کہ یہ غلام کی حیثیت میں بہت ہی اچھا فروخت ہوگا ، چونکہ در حقیقت وہ غلام تو تھا نہیں اس لیے انہوں نے اسے لوگوں کی نظروں سے چھپا لیا۔ اور چونکہ چوری کا مال تھا ، اس لیے کم قیمت پر فروخت کردیا اور اونے پونے سکوں کے عوض۔ وَشَرَوْهُ بِثَمَنٍۢ بَخْسٍ دَرَاهِمَ مَعْدُوْدَةٍ ۚ وَكَانُوْا فِيْهِ مِنَ الزَّاهِدِيْنَ ۔ آخر کار انہوں نے تھوڑی سی قیمت پر چند درہموں کے عوض اسے بیچ ڈالا اور وہ اس کی قیمت کے معاملہ میں کچھ زیادہ کے امیدوار نہ تھے۔ غرض اللہ کے اس برگزیدہ نبی کے لیے یہ حالات نہایت ہی حوصلہ شکن تھے۔