حضرت یوسف کا اصل قصہ یقینی طورپر اس سے زیادہ مفصّل ہے جتنا کہ قرآن میں بیان ہوا ہے۔ مگر قرآن کا اصل مقصد نصیحت ہے، نہ کہ واقعہ نگاری۔ اس لیے وہ صرف ان پہلوؤں کو لیتاہے جو نصیحت اور تذکیر کے لیے مفید ہوں۔ اور بقیہ تمام اجزاء کو حذف کردیتاہے تاکہ تاریخ نگار اس کو مرتب کریں۔
روایات کے مطابق حضرت یوسف تین دن تک اندھے کنوئیں میں رہے۔ انھیں تین دنوں میں غالباً خواب کے ذریعہ آپ کو آپ کا مستقبل دکھایا گیا۔ اس میں آپ نے دیکھا کہ آپ کنویں سے نکلتے ہیں اور پھر عظمت وشان کے ایک اونچے مقام پر پہنچتے ہیں۔ حتی کہ آپ کے اور آپ کے بھائیوں کے درمیان حیثیت کے اعتبار سے اتنا فرق ہوجاتاہے کہ وہ آپ کو دیکھتے ہیں تو پہچان نہیں پاتے۔
حضرت یوسف کے بھائیوں نے جو کچھ کیا وہ انتہائی اشتعال انگیز حرکت تھی۔ مگر ایک طرف حضرت یوسف کا حال یہ تھا کہ انھوں نے اپنے معاملہ کو خداکے حوالے کردیا اور سنسان مقام پر اندھے کنویں کے اندر خاموش بیٹھے ہوئے خدا کی مدد کا انتظار کرتے رہے۔ دوسری طرف آپ کے والد حضرت یعقوب نے صبر جمیل کی روش اختیار کی۔ بعض تفسیروں میں آیا ہے کہ انھوںنے اپنے بیٹوں سے کہا اگر یوسف کو بھیڑیا کھا جاتا تو وہ اس کی قمیص کو بھی ضرور پھاڑ ڈالتا (لَوْ أَكَلَهُ السَّبْعُ لَخَرَقَ الْقَمِيصَ) تفسیر الطبری، جلد