You are reading a tafsir for the group of verses 12:16 to 12:17
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
3

اب ہم یوسف کو اس اندھے کنوئیں میں چھوڑ کر ذرا کنعان چلتے ہیں۔ یہ اب اللہ کی حمایت اور کفالت میں ہیں جب تک کہ اللہ ان کو وہاں سے نکال نہیں دیتا۔ اب پردہ گرتا ہے اور یہ لوگ اس قدر برا کام کرنے کے بعد اب والد کے سامنے کھڑے ہیں ذرا ملاحظہ کریں ان کی بہانہ سازی :

شام کو وہ روتے پیٹتے اپنے باپ کے پاس آئے۔ اور کہا " ابا جان ہم دوڑ کا مقابلہ کرنے لگ گئے تھے اور یوسف کو ہم نے اپنے سامان کے پاس چھوڑ دیا تھا کہ اتنے میں بھیڑیا آکر اسے کھا گیا۔ آ ہماری بات کا یقین نہ کریں گے چاہے ہم سچے ہی ہوں۔ اور وہ یوسف کی قمیص پر جھوٹ موٹ کا خون لگا کرلے غائے تھے۔ یہ سن کر ان کے باپ نے کہا " بلکہ تمہارے نفس نے تمہارے لیے ایک بڑے کام کو آسان بنا دیا۔ اچھا صبروں کروں گا اور بخوبی صبر کروں گا ، جو بات تم بنا رہے ہو ، اس پر اللہ ہی سے مدد مانگی جاسکتی ہے۔

ان کے دل میں کینے کی آگ جل رہی تھی اور یہ لوگ جھوٹ پر جھوٹ گھڑ رہے تھے۔ اگر ان کو اپنے اعصاب پر ذرا بھی کنٹرول ہوتا تو وہ ایسا ہرگز نہ کرتے ، وہ اس مکروہ سازش کا آغاز ہی نہ کرتے اور جب حضرت یعقوب نے ان پر اعتماد کرکے یوسف کو ان کے ساتھ رخصت کردیا تھا تو ان کو باز آجانا چاہیے تھا۔ لیکن یوسف اب ان کی برداشت سے باہر ہوگئے تھے۔ اور وہ یہی سمجھ رہے تھے کہ ان کے لیے اس سیاہ کارنامے کے سرانجام دینے کے لیے یہ بہترین موقعہ ہے۔ پھر ان کو خود حضرت یعقوب کی زبانی بھیڑئیے کا بہانہ بھی مل گیا تھا اور ان کی جلد بازی اور کچے پن کا اس سے بڑا ثبوت اور کیا ہوسکتا ہے کہ انہوں نے باپ کے اندیشے کے سوا کوئی اور بہانہ بھی نہ بنایا ، کہ کل ہی تو حضرت یعقوب اس بہانے سے انہیں ڈراتے تھے اور یہ لوگ کہتے تھے کہ ہم تو بڑا جتھا ہیں۔ اب وہی بہانہ بنا رہے ہیں۔ بظاہر یہ بہانہ تو معقول نہیں ہے کہ رات کو جس بات سے انہیں متنبہ کیا گیا تھا وہی بہانہ صبح کو وہ پیش کردیں۔ پھر ان کے سطحی پن کا اس سے زیادہ اور ثبوت کیا ہوسکتا ہے کہ یوسف کی قمیص پر وہ خون لگا کرلے آئے۔ اور ظاہر یہ ہے کہ یہ بالکل بادی النظر میں ایک چھوٹا سا بہانہ تھا ، لیکن انہوں نے یہ جھوٹ پیش کیا : وَجَاۗءُوْٓا اَبَاهُمْ عِشَاۗءً يَّبْكُوْنَ ۔ قَالُوْا يٰٓاَبَانَآ اِنَّا ذَهَبْنَا نَسْتَبِقُ وَتَرَكْنَا يُوْسُفَ عِنْدَ مَتَاعِنَا فَاَكَلَهُ الذِّئْبُ : شام کو وہ روتے پیٹتے اپنے باپ کے پاس آئے۔ اور کہا " ابا جان ہم دوڑ کا مقابلہ کرنے لگ گئے تھے اور یوسف کو ہم نے اپنے سامان کے پاس چھوڑ دیا تھا کہ اتنے میں بھیڑیا آکر اسے کھا گیا۔

اور وہ خود بھی سمجھتے ہیں کہ بادی النظر میں نظر آتا ہے کہ یہ بہانہ جھوٹا ہے اور مشکوک آدمی تو نظر ہی یوں اتا ہے کہ چور کی داڑھی میں تنکا : چناچہ کہتے ہیں : وَمَآ اَنْتَ بِمُؤْمِنٍ لَّنَا وَلَوْ كُنَّا صٰدِقِيْنَ : آ ہماری بات کا یقین نہ کریں گے چاہے ہم سچے ہی ہوں۔