You are reading a tafsir for the group of verses 11:84 to 11:86
۞ والى مدين اخاهم شعيبا قال يا قوم اعبدوا الله ما لكم من الاه غيره ولا تنقصوا المكيال والميزان اني اراكم بخير واني اخاف عليكم عذاب يوم محيط ٨٤ ويا قوم اوفوا المكيال والميزان بالقسط ولا تبخسوا الناس اشياءهم ولا تعثوا في الارض مفسدين ٨٥ بقيت الله خير لكم ان كنتم مومنين وما انا عليكم بحفيظ ٨٦
۞ وَإِلَىٰ مَدْيَنَ أَخَاهُمْ شُعَيْبًۭا ۚ قَالَ يَـٰقَوْمِ ٱعْبُدُوا۟ ٱللَّهَ مَا لَكُم مِّنْ إِلَـٰهٍ غَيْرُهُۥ ۖ وَلَا تَنقُصُوا۟ ٱلْمِكْيَالَ وَٱلْمِيزَانَ ۚ إِنِّىٓ أَرَىٰكُم بِخَيْرٍۢ وَإِنِّىٓ أَخَافُ عَلَيْكُمْ عَذَابَ يَوْمٍۢ مُّحِيطٍۢ ٨٤ وَيَـٰقَوْمِ أَوْفُوا۟ ٱلْمِكْيَالَ وَٱلْمِيزَانَ بِٱلْقِسْطِ ۖ وَلَا تَبْخَسُوا۟ ٱلنَّاسَ أَشْيَآءَهُمْ وَلَا تَعْثَوْا۟ فِى ٱلْأَرْضِ مُفْسِدِينَ ٨٥ بَقِيَّتُ ٱللَّهِ خَيْرٌۭ لَّكُمْ إِن كُنتُم مُّؤْمِنِينَ ۚ وَمَآ أَنَا۠ عَلَيْكُم بِحَفِيظٍۢ ٨٦
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
3

مدین کا علاقہ حجاز اور شام کے درمیان تھا۔ ان کے پیغمبر حضرت شعیب کا اپنی قوم سے یہ کہنا کہ ’’اگر تم ایمان والے ہو‘‘ ظاہر کرتاہے کہ ان کی قوم مومن ہونے کی مدعی تھی۔ بالفاظ دیگر، وہ اپنے زمانہ کی مسلمان قوم تھی۔ وہ حضرت شعیب سے پہلے آنے والے نبی کی امت تھی اور اب لمبا عرصہ گزرنے کے بعد ان کی بعد کی نسلوں میں بگاڑ آگیا تھا۔

حضرت شعیب نے ان سے کہا کہ اگر تم مومن ہونے کے دعوے دار ہو تو تمھارا دعویٰ خدا کے یہاں اسی وقت مانا جائے گا جب کہ تم اپنے دعوے کے تقاضے پورے کرو۔ تقاضا پورا کیے بغیر دعوے کی کوئی قیمت نہیں۔

تمھارے ایمان کا تقاضا یہ ہے کہ تم صرف ایک اللہ کی عبادت کرو۔ لین دین میں انصاف برتو۔ دوسروں کے لیے وہی پسند کرو جو اپنے لیے پسند کرتے ہو۔ تم میں سے ہر شخص کو چاہیے کہ وہ لوگوں کے حقوق ٹھیک ٹھیک ادا کرے۔ اور اس میں کسی طرح کی کمی نہ کرے۔ زمین میں اس طرح رہو جس طرح خدا چاہتا ہے کہ اس کے بندے رہیں۔ جائز طریقہ سے حاصل كيے ہوئے رزق پر قناعت کرو، نہ کہ نافرمانی کرکے زیادہ حاصل کرنے کی کوشش کرو۔ اگر تم ایسا کرو تبھی تم خدا کے یہاں مومن ٹھہرو گے۔ورنہ اندیشہ ہے کہ خدا کا عذاب تم کو پکڑ لے۔

حضرت شعیب نے ایک طرف یہ کہا کہ لوگوں کو کم نہ دو۔ دوسری طرف یہ فرمایا کہ ’’آج میں تم کو اچھے حال میں دیکھ رہا ہوں‘‘۔ اس سے معلوم ہوتاہے کہ قوم شعیب میں کچھ غریب تھے اور کچھ امیر۔ کچھ زیادہ پانے والے تھے اور کچھ وہ تھے جن کو گھٹا کر مل رہا تھا۔ اگر سارے لوگ کم پانے والے ہوتے تو ان میں ’’اچھے حال والا‘‘ کون باقی رہتا۔

اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہاں جن مخاطبین کا ذکر ہے وہ قوم کے بااثر اور صاحب حیثیت افراد تھے۔ انبیاء اگر چہ ہر ایک کی ہدایت کے لیے آتے ہیں مگر ان کا خطاب خاص طور پر وقت کے ممتاز طبقہ سے ہوتاہے۔کیونکہ عوام انھیں لوگوں کے تابع ہوتے ہیں۔ وہ زیادہ تر اپنے بڑوں کے نقش قدم پر چلتے ہیں۔ خواص تک دعوت پہنچنا بالواسطہ طورپر عوام تک بھی دعوت کا پہنچنا ہے۔