حضرت ابراہیم کی یہ گفتگو ان فرشتوں سے ہوئی جو قوم لوط کو ہلاک کرنے کے لیے آئے تھے۔ چونکہ یہ فرشتے خدا کی طرف سے اور اس کے حکم کی تعمیل میں آئے تھے، اس لیے خدا نے اس کو اپنی طرف منسوب فرمایا۔ پیغمبر اور فرشتوں کے درمیان اس گفتگو کا ایک جزء سورۂ عنکبوت (آیت
حضرت ابراہیم کی دعا قوم لوط کے حق میں منظور نہیں ہوئی۔ اسی طرح اس سے پہلے حضرت نوح کی دعا اپنے بیٹے کے لیے منظو ر نہیں ہوئی تھی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ مغفرت کی دعا معروف معنوں میں کوئی سفارش نہیں ہے جو کہ ایک شخص دوسرے شخص کے لیے کرے۔ اور وہ دعا کرنے والے کی بزرگی کی بنا پر اس کے حق میں مان لی جائے۔
دعا خود اپنے آپ کو خدا کے سامنے پیش کرنا ہے۔ اگر حضرت نوح کے بیٹے یا حضرت لوط کی قوم کے لوگوں کے اندر خود دعا کا جذبہ ابھر آتا اور وہ اپنی نجات کے لیے خدا کو پکارتے تو یقیناً خدا انھیں معاف کردیتا اور اپنی رحمت ان کی طرف بھیج ديتا ۔ عذاب کا لوٹا دیا جانا ممکن ہے، جیسا کہ حضرت یونس کی قوم کی مثال سے ثابت ہوتاہے۔ مگر وہ جب بھی لوٹے گا خود زیرِ سزا افراد کی دعاؤں سے لوٹے گا، نہ کہ کسی غیر شخص کی دعاؤں سے، خواہ یہ غیر شخص پیغمبر ہی کیوں نہ ہو۔
ایک شخص کو دوسرے شخص کے لیے بھی دعا کرنی چاہیے۔ اور ہرزمانہ میں پیغمبروں نے اور صالح لوگوں نے دوسروں کے لیے دعائیں کی ہیں۔ مگر یہ دعا حقیقۃً خود دعا کرنے والے کے حلیم اور اوّاہ اور منیب ہونے کا اظہار ہوتاہے۔ اللہ کا ایک بندہ جو اللہ سے ڈرتاہو وہ اللہ کے عذاب کو دیکھ کر کانپ اٹھتا ہے اور اپنے لیے اور دوسروں کے لیے دعائیں کرنے لگتا ہے ۔ تاہم کسی کی دعا دوسرے کے حق میں اسی وقت مفیدہوگی جب کہ وہ خود بھی اللہ سے ڈر کر اللہ کو پکار رہا ہو۔