ام يقولون افتراه قل ان افتريته فعلي اجرامي وانا بريء مما تجرمون ٣٥
أَمْ يَقُولُونَ ٱفْتَرَىٰهُ ۖ قُلْ إِنِ ٱفْتَرَيْتُهُۥ فَعَلَىَّ إِجْرَامِى وَأَنَا۠ بَرِىٓءٌۭ مِّمَّا تُجْرِمُونَ ٣٥
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
3

جو لوگ کہتے تھے کہ پیغمبر نے یہ کلام خود گھڑ لیا ہے، یہ خدا کی طرف سے نہیں ہے، وہ وحی والہام کے منکر نہ تھے۔ حتی کہ وہ ماضی کے رسولوں کو مانتے تھے۔ پھر انھوںنے ایسا کیوں کہا۔یہ دراصل وحی کا انکار نہیں تھابلکہ صاحب وحی کا انکار تھا۔ جو شخص خداکی طرف سے بول رہا تھا وہ دیکھنے میں ان کو ایک معمولی انسان دکھائی دیتا تھا۔ ان کا ظاہر پرست مزاج سمجھ نہیں پاتا تھا کہ ایسا ایک آدمی وہ شخص کیسے ہوسکتاہے جس کو خدا نے اپنے پيغام كي پیغام بری کے لیے چناہو۔

’’میرا جرم میرے اوپر، تمھارا جرم تمھارے اوپر‘‘ یہ دارصل کلمہ رخصت ہے۔ جب مخاطب دلیل سے بات کو نہیں مانتا، ہر قسم کی وضاحت کے باوجود وہ انکار پر تلا ہوا ہے تو داعی محسوس کرتاہے کہ اس کے لیے اب آخری چارۂ کار صرف یہ ہے کہ وہ یہ کہہ کر خاموش ہوجائے کہ میں اور تم دونوں حاکم اصلی کے سامنے پیش ہونے والے ہیں۔ وہاں ہر ایک کاحال کھل جائے گا۔اور ہر آدمی اپنی حقیقت کے اعتبار سے جیسا تھا اس کے مطابق اسے بدلہ دیا جائے گا۔ جب دلیل کی حد ختم ہوجائے تو داعی کے لیے اس کے سوا کوئی صورت باقی نہیں رہتی کہ وہ یقین کی زبان میں کلام کرکے علیحدگی اختیار کرلے۔