غَيْبُ السَّمَاوَاتِ وَالأرْضِ (123:12) ّآسمانون اور زمین میں جو کچھ چھپا ہوا ہے سب اللہ کے قضبہ قدرت میں ہےٗ ۔ ان تمام امور کے آخری فیصلے اس کے ہاتھ میں ہیں ۔ اے پیغمبر تمہارے معاملات اور اہل ایمان کے تمام معاملات اور ان کو گون کے معاملات جو ایمان نہیں لاتے اور تمام موجودہ مخلوقات کے معاملات اور اہل ایمان کے تمام معاملات ۔ اور ان لوگوں کے معاملات جو ایمان نہیں لاتے اور تمام موجوسہ مخلوقات کے معاملات اور تمام آنے والے مخلوقات کے معاملات سب کے سب اللہ کے قبضہ قدرت میں ہیں
وَإِلَيْهِ يُرْجَعُ الأمْرُ كُلُّهُ فَاعْبُدْهُ وَتَوَكَّلْ عَلَيْهِ وَمَا رَبُّكَ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعْمَلُونَ (11 : 123) اور سارا معاملہ اسی کی طرف رجوع کیا جاتا ہے ۔ پس اے نبی ، تو اس کی بندگی کر اور اسی پر بھروسہ رکھ ، جو کچھ تم لوگ کررہے ہو ، تیرا رب اس سے بیخبر نہیں ہے ٗٗ ۔
چونکہ تمام امور اسی کی طرف برائے فیصلہ لوٹتے ہیں اس لیے وہی اس قابل ہے کہ اس کی بندگی جائے ۔ وہی اس قابل ہے کہ اس پر بھروسہ کیا جائے ، کیونکہ وہی ولی ہے وہی جانتا ہے کہ کس کی کیا ضرورت ہے اور وہ ہر خیر اور شر سے واقف ہے ۔ اس کے ہاں کسی کی جزائ ضائع نہیں ہوتی اور کوئی سزا سے بچ نہیں سکتا ۔۔۔۔۔ وہ تمہارے کسی عمل سے غافل نہیں ہے ۔
غرض اس سورت کا آغاز بھی عبادت انابت الی اللہ اور آخر کار رجوع الی اللہ کے مضمون سے ہوا ، تو اس کا خاتمہ بھی توحید ، عبادت توبہ انابت اور آخرکار اللہ کی طرف لوٹنے کے مضامین پر ہوا جبکہ ان مضامین کی وضاحت اس پوری کائنات کے مطالعے ار تاریک انسانی کے مطالعے کے ذریعے کی گئی ۔
اسی طرح قرآن کریم کا فنی حسن کلام کے آغاز و انجام میں یگانگت پیدا کردیتا ہے اور قرآن کریم کے تمام قصص ، مضامین اور ان کا فکری رخ باہم متناسب بن جاتے ہیں اور اگر یہ قرآن اللہ کا کلام نہ ہوتا تو اس میں بیشمار فکری تضادات موجودہوتے ۔
جو شخص اس سورت میں بات کی روانی ، بلکہ تمام مکی قرآن کریم کے کلام کا ہدف معلوم کرنے کی کوشش کرے تو اسے آسانی کے ساتھ معلوم ہوجاتا ہے کہ اس پورے کلام میں ایک لائن اختیار کی گئی ۔ اس لائن پر پورا کلام آگے بڑھ رہا ہے بلکہ یہ لائن اس کلام کا محور ہے اور پورا کلام اس محور اور موضوع کے گردگھوم رہا ہے ۔ تمام خطوط اس مرکزی نکتے پر آکر ملتے ہیں اور اس کے تمام ریشے اس محور کے ساتھ بندھے ہوئے ہیں ۔ یہ محور نظریہ حیات اور اس قصورحیات کا محور اور موضوع ہے جس کے اردگرد کلام گھوم رہا ہے ۔ وہ کیا ہے ، یہ کہ قرآن انسان کے لیے ایک مکمل نظام زندگی تجویز کرتا ہے اور اس کا قیام چاہتا ہے۔
مناسب یہ ہے کہ ہم اس مرکزی لائن ، اس محور اور اس عمود پر قدرے بحث کریں ۔ اس کا اظہار اس پوری سورت میں اچھی طرح ہوتا ہے ۔ بعض نکتے تو ہم بیان بھی کر آئے ہیں لیکن ہم چاہتے ہیں کہ اس تبصرے میں ربط قائم کرنے کے لیے ان کو دربارہ یہاں لے لیں ۔
ایک نہایت ہی اہم حقیقت اس پوری سورت میں بیان کی گئی ۔ اس سورت کی ابتدائی تمہیدی آیات میں بھی ، اس سورت کے قصص میں بھی جن میں پوری سورت اور پوری تاریخ انسانی کی لائن دی گئی ہے ۔ اور اس سورت کی اختتامی آیات میں بھی جہاں حضور اکرم ﷺ کو ہدایت کی گئی ہے کہ آپ مشرکین کو صاف صاف بتادیں کہ وہ آخری نتائج بھگتنے کے لیے تیار ہوجائیں ، وہ حقیقت ہے کیا ؟
اس پوری سورت میں جس اہم مسئلے کو لیا گیا ہے وہ یہ ہے کہ تم لوگ صرف اللہ کی ّّعبادت ٗٗکرو اور اس بات کی ممانعت کی گئی ہے کہ اللہ کے سوا کسی اور کی ّّعبادت ٗٗکرو ، اور یہ کہ عبادت ہی دراصل پورے نظام زندگی یعنی ّّدین ٌٗکانام ہے ۔ اور ہر قسم کی سزا کی دھمکی اور ہر قسم کی جزائ کے وعدے اور حشر کے دن کا حساب و کتاب اور ثواب عقاب سب کے سب اسی بنیادی عقیدے اور اصول پر مبنی ہیں جیسا کہ ہم نے سورت کے مقدمے میں بھی کہا کہ ّّعبادت ٗٗصرف اللہ کی کرو۔
سب سے پہلے تو ہمیں یہ دیکھنا ہے کہ قرآن نے اس حقیقت کو ذہن نشین کرنے کے لیے کیا منہاج اختیار کیا ہے اور اس منہاج کی اہمیت کیا ہے ؟ صرف اللہ کی ّّعبادتٗٗ کرنے کو قرآن کریم جن صیغوں اور طریقوں میں ادا کیا ہے ایک ان میں سے یہ ہے کہ وَإِلَى عَادٍ أَخَاهُمْ هُودًا قَالَ يَا قَوْمِ اعْبُدُوا اللَّهَ مَا لَكُمْ مِنْ إِلَهٍ غَيْرُه (50) ّّاے برادران قوم ، اللہ کی بندگی کرو ، اس کے سوا تمہارا کوئی الٰہ نہیں ہےٗٗ ۔ اور دوسرا طریقہ ہے۔
أَلا تَعْبُدُوا إِلا اللَّهَ إِنَّنِي لَكُمْ مِنْهُ نَذِيرٌ وَبَشِيرٌ (2) ّّاللہ کے سوا کسی کی بندگی نہ کرو ، بیشک میں اس کی طرف سے تمہارے لیے نذیر اور بشیر
ہوں ٗٗ ۔
ان دونوں اندارہائے تعبیر میں فرق یہ ہے کہ ایک امر ہے اور دوسرے میں نہیں ہے ۔ کیا مثبت امر اور منفی اور ممانعتی انداز تعبیر میں کوئی فرق ہے یا ایک ہی مفہوم ہے ؟ پہلے انداز تعبیر کا مفہوم یہ ہے کہ اللہ ہی کی بندگی کرو اور اسکے سوا کوئی قابل پرسش قدر ہی نہیں ہے اور دوسرے کا مفہوم یہ ہے کہ کسی غیر اللہ بندگی نہ کرو ۔ دوسرا مفہوم پہلے مفہوم کا تقاضا ہے ۔ پہلا مفہوم تو ثابت مفہوم ، ہے اور صراحت کے ساتھ حکم ہے اور دوسرا مفہوم اسکا لازمی نتیجہ ہے ۔ لیکن اللہ نے صرف پہلے انداز یعنی مثبت حکم ہی پر اکتفانہ کیا بلکہ دوسرے الٰہوں کی بندگی سے بھی صراحت کے ساتھ ممانعت کردی حالانکہ اگر دوسرا منفی مفہوم کو مستقلا بیان کیا جاتا تو بھی وہ پہلے مثبت حکم کا لازمی تقاضا تھا۔ پھر ایک ہی بات کو مثبت اور منفی دونوں طریقوں سے کیوں بیان کیا گیا اس لیے کہ اللہ کے ہاں یہ بات نہایت ہی اہم ہے اور اس اہمیت کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے اس پر اکتفائ نہیں کیا کہ نہی عبادت الٰہی کے منطوق کا لازمی نتیجہ ہے اس لیے اس کے تکرار کی ضرورت نہیں ہے ۔ اس اہمیت پیش نظر اسے منفی صیغوں سے بھی بیان کیا گیا۔
مثبت اور منفی عبادت میں توحید کے عقیدے کے بیان کا مطلب یہ ہے کہ اللہ کی بندگی کرو اس کے سوا کسی اور کی بندگی نہ کرو ، یہ مثبت اور منفی انداز بیان اس لیے اختیار کیا گیا ہے کہ بعض اوقات انسانیت پر ایسے حالات آجاتے ہیں کہ انسان خدائے بزرگ و برتر کے وجود کے بھی قائل ہوتے ہیں لیکن وہ اللہ کے ساتھ ساتھ دوسری شخصیات اور الٰہوں کو بھی تسلیم کرتے ہیں اور ان کی بھی عبادت کرتے ہیں ۔ یوں لوگ درحقیقت شرک میں مبتلا ہوجاتے ہیں لیکن سمجھتے یہ ہیں کہ وہ صحیح العقیدہ مسلمان ہیں۔
صرف اس وجہ سے عقیدہ توحید کو امرونہی اور بیک وقت مثبت ومنفی انداز میں بیان کیا گیا تاکہ ایک حکم دوسرے کے مئوید اور مئوکد ہو اور تاکہ عقیدہ توحید کے اندر کوئی جھول اور کوئی سوراخ نہ رہے ۔ جس سے شرک اندر آسکے ۔ یہ انداز تعبیر قرآن میں متعدد مقامات پر وہرایا گیا ہے ۔ اس کے چند نمونے اس سورت سے نیز دوسری سورتوں سے قابل ملاحظہ ہیں :
الر كِتَابٌ أُحْكِمَتْ آيَاتُهُ ثُمَّ فُصِّلَتْ مِنْ لَدُنْ حَكِيمٍ خَبِيرٍ (1) أَلا تَعْبُدُوا إِلا اللَّهَ إِنَّنِي لَكُمْ مِنْهُ نَذِيرٌ وَبَشِيرٌ (2) یہ کتاب ہے جس کی آیات کو محکم
بنایا گیا پھر ان کو مفصل کیا گیا ، اس ذات کی طرف سے جو حکیم اور خبیر ہے ، یہ کہ نہ عبادت کرو ماسوائے اللہ کے ، میں تمہارے لیے اس کی جانب سے ڈرانے والا اور خوشخبری دینے والا ہوں “۔
وَلَقَدْ أَرْسَلْنَا نُوحًا إِلَى قَوْمِهِ إِنِّي لَكُمْ نَذِيرٌ مُبِينٌ (25) أَنْ لا تَعْبُدُوا إِلا اللَّهَ إِنِّي أَخَافُ عَلَيْكُمْ عَذَابَ يَوْمٍ أَلِيمٍ (26) ” بیشک ہم نے بھیجا نوح علیہ
السلام کو اس کی قوم کی طرف ، اس نے کہا بیشک میں تمہارے لیے کھلا ڈرانے والا ہوں کہ اللہ کے سوا کسی کی بندگی نہ کرہ۔ تمہارے بارے میں عذاب الیم سے ڈرتا ہوں “ ‘۔
وَإِلَى عَادٍ أَخَاهُمْ هُودًا قَالَ يَا قَوْمِ اعْبُدُوا اللَّهَ مَا لَكُمْ مِنْ إِلَهٍ غَيْرُهُ إِنْ أَنْتُمْ إِلا مُفْتَرُونَ (50) ” اور عاد کی طرف ان کا بھائی ہو ، اس نے کہا
اے برادر ان قوم ، اللہ کی بندگی کرو ، اس کے سوا تمہارے لیے کوئی الٰہ نہیں ہے ، تم نے محض جھوٹ گھڑ رکھے ہیں “۔
وَقَالَ اللّٰهُ لَا تَتَّخِذُوْٓا اِلٰـهَيْنِ اثْـنَيْنِ ۚ اِنَّمَا هُوَ اِلٰهٌ وَّاحِدٌ ۚ فَاِيَّايَ فَارْهَبُوْنِ 51
” اور اللہ نے کہا ، دو الٰہہ نہ بناؤ یہ حقیقت ہے کہ الٰہ صرف ایک ہے ، بس مجھ ہی سے ڈرو “۔
مَا كَانَ اِبْرٰهِيْمُ يَهُوْدِيًّا وَّلَا نَصْرَانِيًّا وَّلٰكِنْ كَانَ حَنِيْفًا مُّسْلِمًا ۭ وَمَا كَانَ مِنَ الْمُشْرِكِيْنَ 67
” ابراہیم نہ یہودی تھے اور نہ نصرانی بلکہ وہ یکسو مسلم تھے اور وہ مشرکین میں سے نہ تھے “۔
” میں اپنے چہرے کو یکسو ہو کر اس ذات کی طرف پھیر تا ہوں جس نے آسمان اور زمین کو پیدا کیا اور میں مشرکین میں سے نہیں ہوں “۔
توحید اور اس کی حقیقت کے بیان میں یہ اندازباربار قرآن میں آتا ہے اور اس مفہوم میں کوئی شک نہیں رہتا۔ اس انداز سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلام میں اس عقیدے کی اہمیت اور عظمت کیا ہے ۔ اور یہ انداز اس لیے کیا گیا ہے کہ اس عقیدے کے ضمنی تقاضون اور ضمنی مفہومات کو بھی واضح اور منصوص طریقے سے لایا جائے ۔ اور اللہ تعالیٰ اپنی اس مخلوق کو اچھی طرح جانتے تھے اور اللہ نے اس طرح اس انسان کے مفاد میں ضروری سمجھا کہ عقیدہ تو حید کے کسی بھی پہلو میں کوئی اجمال اور کوئی جھول نہ رہے ۔ اور اللہ تو حکمت بلیغہ کا مالک ہے ، وہ اپنی مخلوق کی کمزوریوں کو اچھی طرح جانتا ہے اور نہایت ہی باریک بین اور خبردار ہے ۔
اب ہم لفظ ” عبادت “ کے اصطلاحی معنی پر غور کرتے ہیں ۔ یہ لفظ اس سورت اور پورے قرآن مجید میں بار بار استعمال ہوا ہے تاکہ ہم یہ سمجھ سکیں کہ قرآن کریم بار بار کیوں اس بات پر زور دیتا ہے کہ اللہ کی عبادت کرو اور اس کے سوا کسی اور کی عباد نہ کرو ۔ اور یہ کہ اس لفظ کو مثبت اور منفی صیغوں میں تاکید بیان کیا گیا ہے ۔
اس سے قبل قصہ ہود اور ان کی قوم کے ساتھ حضرت ہود کے مکالمے کے ضمن میں ہم نے ” العبادۃ “ “ کے مفہوم کو اچھی طرح واضح کیا ہے ۔ اور یہ بتایا ہے کہ اس نکتے کو قرآن کریم کیوں بار بار لاتا ہے اور یہ کہ اس نکتے پر کس طرح انسانی تاریخ میں انبیاء اور مصلحین نے زور دیا ہے ؟ اور اس راہ میں انہوں نے کیا کیا مشکلات پر داشت کی ہیں لیکن اس تشریح کے علاوہ یہاں ہم چاہتے ہیں کہ اس کے مفہوم کے بارے چند اور جھلکیاں یہاں دے دیں۔
عبادت کا یہ مفہوم کہ اسکا اخلاق ان مراسم پر ہوتا ہے جو اللہ اور اسکے بندے کے درمیان ہوتے ہیں اور یہ مفہوم بمقابلہ ان معاملات کے ہے جو ایک انسان دوسرے انسان کے درمیان ہوتے ہیں۔ یہ نزول قرآن کے وقت مروج نہ تھے ۔ عبادات ومعاملات دو الگ اصطلاحات بعد میں درج ہوئی ہیں ۔ اسلام کے عہد اول اور دور نزول قرآن میں یہ تفریق نہ تھی۔
اس سے قبل ہم اپنی کتاب (خصائص التصور الاسلامی ومقوماتہ ) میں اس کے بارے میں تفصیلات دی ہیں ۔ مناسب ہے یہاں چند فقرے نقل کردیں۔
” انسانی اعمال اور سرگرمیوں کی یہ تقسم کہ اس کا ایک حصہ ” عبادات “ پر مشتمل ہے اور دوسراحصہ معاملات پر مشتمل ہے ۔ اسلامی تاریخ کا اس دور سے متعلق ہے جس میں فقہ کی تدوین ہوئی ۔ ابتداء میں اس تقسیم کی غرض وغایت صرف علوم ومضامین کی فنی ترتیب وتدوین تھی۔ جس طرح کسی فن کی کتابوں کی ترتیب وتدوین میں ہوتارہتا ہے ۔ لیکن نہایت افسوس کے ساتھ یہ بات کہنا پڑتی ہے کہ محض اس فنی تقسیم کی وجہ سے اسلامی تصورات اور نظریات میں بہت ہی برے نتائج پیدا ہوئے۔ اور اس تصوراتی اور نظریاتی کجی کی وجہ سے اسلامی معاشرے کی عملی زندگی پر بھی برا اثر مرتب ہوا۔ لوگوں کے اندر یہ خیال پیدا ہوگیا صرف وہی اعمال عبادت ہیں جن کا تعلق خدا کی پرستش کے مراسم سے ہے اور فقہی تقسیم کے مطابق دوسری سرگرمیاں جن کو فقہ میں ” معاملات “ “ کے عنوان سے بیان کیا گیا ۔ ان پر عبادت کا اطلاق نہیں ہوتا۔ حالانکہ یہ بات اسلامی تصورحیات کے مطابق اصل بات سے انحراف ہے ۔ اور اس کی بےراہ روی کی وجہ سے مسلمانوں کی پوری زندگی میں انحراف پیدا ہوگیا۔
اصل حقیقت یہ ہے کہ انسان کے اعمال میں سے کوئی عمل ایسا نہیں ہے جس پر لفظ عبادت کا اطلاق نہ ہوتا ہو بلکہ اسلامی نظام حیات کا ہرجزواول سے لے کر آخر تک عبادت الٰہی کے لیے ہے ۔ غرض اسلامی نظام کے اجزاء یعنی نظام حکومت وسیاست ، اقتصادی نظام ، اسلام کا قانون جرائم اور اسلام کا سول لاء ، اسلام کا عائلی قانون اور تمام دوسرے قوانین درحقیقت عبادات ہیں ۔ اور یہ تمام قوانین لفظ عبادت کے مفہوم کو بروئے کا لانے کے لئے وضع ہوئے ہیں۔ لیکن انسان کی تمام سرگرمیاں اسلامی نظام کے مطابق اور لفظ عبادت کی تعریف میں تب آئیں گی جب وہ قرآن وسنت اور اسلامی شریعت کے مطابق ہوں۔ اس طرح کہ ایک مسلمان اللہ وعدہ کو الٰہ اور خدا سمجھے ۔ صرف اس کی بندگی اور عبادت کا اقرار کرے۔ اور پوری زندگی اس نظام کے مطابق عملاً بسر کرے۔ اور یہی تخلیق انسان اور تخلیق کائنات کی اصل غرض وغایت ہے ، اگر ایسا نہ ہوگا تو انسان اسلامی نظام کی اسکیم سے خارج ہوگا اور وہ دین اسلام کے اندر تصورنہ ہوگا۔
وہ مضامین اور شعبے جن کے لئے فقہاء ” عبادات “ استعمال کیا ہے ، اگر ان پر غور کیا جائے اور قرآن کریم میں ان کے بارے میں جو احکام دیئے گئے ہیں ، ان کو پڑھائے جائیں تو معلوم ہوگا کہ یہ شعبے اور مضامین قرآن نے ان شعبوں اور مضامین سے علیحدہ نہیں پیش کیے جن پر فقہاء نے لفظ معاملات کا اطلاق کیا ہے بلکہ دونوں قسم کے احکام قرآن اور سنت میں ایک ہی سیاق کلام میں باہم مربوط آتے ہیں اور ان کا ذکر اس طرح ہوا کہ دونوں ہی خدا اور رسول ﷺ کی اطاعت اور خدا کی بندگی اور عبادات کے مفہوم میں آتے ہیں جس کے لیے اللہ نے زمین و آسمان اور جن وانس کو پیدا کیا ہے اور یہی مفہوم ہے لا الٰہ الا اللہ اور توحید کا ہے۔
تاریخ اسلام میں ازمنہ متاخرہ میں اس تقسیم کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ مسلمانوں نے یہ سوچنا شروع کردیا کہ اگر وہ عبادات کے حصے پر عمل پیراہوں اور عبادات احکام خداوندی کے مطابق سرانجام دیں اور اگر معاملات میں وہ کسی دوسرے نظام کے پیرو ہوں اور معاملات میں وہ اللہ کے بجائے کسی اور ذریعے اور ماخذ سے ہدایات لیں تو بھی وہ مسلمان ہوسکتے ہیں ، حالانکہ قانون سازی اور زندگی کی ضابطہ بندی کے دوسرے نظام اللہ کے احکام خلاف ورزی کیوں نہ کررہے ہوں۔
حقیقت یہ ہے کہ مسلمانوں کی جانب سے یہ ان کی خالص خوش فہمی ہے ۔ اسلام کو تقسیم نہیں کیا جاسکتا اور نہ اسلامی نظام کے حصے بخرے کیے جاسکتے ہیں ۔ اسلام کو اس انداز اور اس نہج پر جو بھی تقسیم کرے گا وہ دائرہ اسلام سے خارک ہوگا اور اس کا اس دین سے کوئی تعلق نہ ہوگا ۔
یہ ہے وہ عظیم حققت جس کی فکر ہر مسلمان کو کرنی چاہئے کہ وہ اپنے اسلام کو حقیقی اسلام بنائے۔ بشرطیکہ وہ اللہ کے اس مقصد کو پورا کرنا چاہئے جس کے لیے اللہ نے اس کی تخلیق کی ہے۔
یہ ہیں وہ چند مقصدی فقرے جو ہم نے اپنی کتاب خصائص التصور اسلامی سے نقل کیے ۔ ان فقروں پر ہم صرف چند کلمات کا اضافہ ہی کریں گے ۔ جو ہم اس سے پہلے اس پارے میں مفصل بیان بھی کردیئے ہیں کہ جن عربوں کے سامنے نبی ﷺ یلا الہ الا اللہ کی دعوت پیش کی اور کہا تھا کہ اللہ ہی کی عبادت کرو ، اس کے سوا کوئی الٰہ نہیں ہے کہ وہ عرب اس لفظ کو صرف پرستش کے معنی میں نہ بولتے تھے اور نہ ان کو فقہاء کی تقسیم عبادات و معاملات کا علم تھا بلکہ مکہ میں جب یہ حکم آیا کہ اللہ کے سوا کسی اور کی عبادت نہ کرو تو اس وقت اسلامی عبادات ابھی تک فرض ہی نہ تھیں۔ بلکہ ان کے نزدیک عبادت کا مفہوم یہ تھا کہ پوری زندگی اللہ کی اطاعت میں دے دو اور اپنی پوری زندگی کو غیر اللہ کی اطاعت میں سے نکال دو اور حضور اکرم ﷺ سے حضرت عدی ابن حاتم سے احبار وریان کے بارے میں فرمایا
بلی انہم
ْْ ہاں اہوں نے ان (اہل کتاب) کے لیے حرام کو حلال کیا اور حلال کو حرام کیا۔ اور انہوں نے ان کی اطاعت کی۔ یہ تھی ان کی جانب سے ان کی عبادت ۔ اور مراسم عبودیت پر فظ عبادت کا اطلاق یوں ہوا کہ یہ بھی عبادت کا ایک جزء ہیں اور انسانی زند کی کی سرگرمیوں کا ایک حصہ ہیں لیکن لفظ عبادت کا پورا مفہوم و مدلول صرف ان مراسم میں منحصر نہیں ہے۔
اس سے قبل ہم اسی بارے میں یہ بات کہہ آئے ہیں واقعہ یہ ہے کہ اگر عبادت سے مراد صرف مراسم عبادت ہی ہوتے تو پھر رسولوں اور رسالتوں کی سرے سے ضرروت ہی نہ پڑتی ، اور رسولوں نے انسانی تاریخ میں اقامت دین کے لیے جو ان تھک کوششیں اور مساعی کیں ان سرے سے ضرورت ہی پیش نہ آتی۔ اور پوری انسانی تاریخ میں اہل ایمان نے جو عظیم قربانیاں دیں ان کی ضرورت بھی نہ تھی ، حقیقت یہ ہے کہ یہ عظیم قربانیاں محض اس لیے دی گئیں کہ لوگوں کو اپنے جیسے انسانوں کی غلامی اور اطاعت سے نکال کر صرف اللہ کی بندگی اور اطاعت میں داخل کیا جائے اور ایک ایسا نظام قائم کیا جائے جس میں اللہ کی حاکمیت ہو اور لوگ دنیا و آخرت دونوں کے معاملات میں اللہ کے مطیع ہوں۔
صرف اللہ کی حاکمیت اور صرف اللہ کی اطاعت اور بندگی کرنا ہی ایک ایسا مقصد اور جامع و مانع توحید ہے جس کے لیے رسالتوں کا طویل سلسلہ جاری کیا گیا۔ اور اس کے لیے تاریخ میں عظیم جدوجہد کی گئی اسی راہ میں اس قدر قربانیاں دی کئیں اور مشقتیں برداشت کی گئیں اور یہ کام اس لیے نہیں کیا گیا کہ اللہ تعالیٰ کو کہ سی اس یک ضرورت تھی ، بلکہ اس لیے کہ اس کے سوا انسان کی زندگی نہ درست ہوسکتی ہے ، نہ انسان معززوبلند ہوسکتا ہے اور نہ اس کا رہن سہن ایک اسنان کے لائق ہوسکتا ہے۔ یہ کام صرف اس ہمہ جہت اور ہمہ گیر عقیدہ توحید کے ذریعے ہوسکتا ہے۔ ایسا عقیدہ جس کی گرفت میں انسان کی پوری زندگی ہو “۔
جہاں ہم نے مذکورہ بالا اقتباس دیا تھا ، وہاں ہم نے یہ وعدہ کیا تھا کہ آخر میں ہم اس موضوع پر طویل بحث کریں گے۔ لہذا ہم یہاں انسانی زندگی پر عقیدہ توحید کے اثرات کے بارے میں قدرے بحث کرتے ہیں۔
پہلا نکتہ یہ ہے کہ اگر انسان عقیدہ توحید کو اس کے اس جامع و مانع اور مکمل مفہوم کے ساتھ قبول کرلے تو اس کا اس کی ذاتی زندگی کی حد تک کیا اثر ہوگا ، اس کی فطری ضروریات ، اس کیمادی وجود ، اس کے تصورات اور پھر ان تصورات کی وجہ سے اس کی عملی زندگی پر کیا اثر ہوگا۔
” یہ تصور اور یہ سوچ اپنی پوری عمومیت کے ساتھ جب تمام امور حیات کو اپنی تحویل میں لے لیتی ہے تو یہ تصور انسانی زندگی سے اس کے ہر پہلو سے مخاطب ہوتا ہے۔ انسانی زندگی کی تمام دلچسپیوں ، اس کی تمام ضروریات ، اور اس کے تمام رجحانات کو اپنی گرفت میں لیتا ہے اور ان کے رخ کو صرف ایک سمت کی طرف موڑ دیتا ہے۔ اب اس کا معاملہ صرف اسی سمت کے ساتھ ہوتا ہے ۔ انسان سب کچھ اسی جہت سے طلب کرتا ہے۔ انسان اپنی ہر چیز کے ساتھ اسی طرف آگے بڑھتا ہے ، اس کی امیدیں بھی اسی سمت سے وابستہ ہوتی ہیں اور اس کے اندیشے بھی اسی سے ہوتے ہیں ، وہ صرف اس سمت کی رضاجوئی کا طلبگار ہوتا ہوتا اور اسی کے غضب سے استغفار کرتا ہے۔ اس کے لیے کہ یہی سرکار ہر چیز کی مالک و خالق ہے ، اور وہی پوری کائنات کی مدبر ہے۔ ۔
” یہ تصور انسانی شخصیت کا رخ ایک ہی مرجع اور منبع کی طرف موڑیتا ہے۔ اسی مصدر سے انسان حقائق و تصورات اخذ کرتا ہے ، اسی سے اپنے پیمانے اور اقدار لیتا ہے ، اس سے اصول و قوانین حاصل کرتا ہے۔ ہر سوال کا جواب وہ وہیں سے لیتا ہے ، اور انسان اور اس کائنات کے حوالے سے جو سوالات بھی اس کے ذہن میں اٹھتے ہیں ان کا حل وہ اسی مصدر اور مرجع سے پاتا ہے “۔
اب انسان کی شخصیت ایک مجتمع شخصیت ہوتی ہے۔ اس کا شعور ، اس کا طرز عمل ، اس کے جذبات و میلانات ، ان کا تعلق عقیدے سے ہو یا نظام زندگی سے نصرتو اعانت سے ہو یا ہدایت اخذ کرنے سے ہو ، زندگی سے متعلق یا آخرت سے متعلق ہو ، زندگی کی جدوجہد اور تحریک سے ہو یا صحت اور رزق سے متعلق ہو ، دنیاوی امر یا اخروی امر سے یہ تمام امور باہم مجتمع ہوجاتے ہیں ، اب ان میں کوئی تفریق اور جدائی نہیں رہتی اور ان امور میں انسانی شخصیت مختلف راستے اختیار نہیں کرتی اور نہ ہی مختلف اسالیب پر چلتی ہے “۔
” انسانی شخصیت جب اس نہج پر متحد و مجتمع ہوجاتی ہے۔ تو یہ اس کے بہت ہی اچھے دن ہوتے ہیں ، کیونکہ یہ وحدت کی حالت میں ہوتی اور سچائی کہ پہلی صفت یہ ہے کہ اس کے اندر وحدت ہوتی ہے ، وہ ایک ہوتی ہے ، اس لئے کہ جب حق تعالیٰ ایک ہے تو حق بھی ایک ہوتا ہے ، بلکہ اس پوری کائنات میں یہ وحدت اور یگانگت ایک اہم حقیقت ہے ، اگرچہ مظاہر ، اشکال اور حالات مختلف ہوں۔ انسان اپنی مختلف صلاحیتوں اور رنگون اور شکلوں کے باوجود اصل میں ایک ہے۔ توحید اور وحدت دراصل انسانی وجود کا اصل مدعا ہے۔ انسان جب بھی اور جہاں بھی اپنی حقیقت کی تلاش میں نکلے گا ، اپنی عادات اور شکلوں کے اختلاف کے باجود اس کی حقیقت ایک ہی ہوگی۔ “۔
” جب یہ انسانی شخصیت ایسے حالات میں ہوتی ہے کہ وہ حالات ہر میدان میں ” حقیقت “ اور اس کیت ساتھ ہم آہنگ ہوں تو اس وقت شخصیت اپنے عروج پر ہوتی ہے وہ اس پوری کائنات کے ساتھ ہم آہنگ ہوتی ہے۔ اس کی ذات اور اس کائنات کے درمیاں کوئی تضاد اور ٹکراؤ نہیں ہوتا جس کے اندر وہ رہتی ہے۔ اس شخصیت اور اس کائنات دونوں کے درمیان ایک ہی حقیقت موثر ہوتی ہے۔ جب انسانی شخصیت اس عظیم کائنات کے ساتھ ہم آہنگ ہوکر چلتی ہے تو اس ہم آہنگی کے نتیجے میں دنیا میں عظیم انقلابات برپا ہوتے ہیں اور عظیم ادوار وجود میں آتے ہیں۔ “
” مثلاً جب مسلمانوں کی پہلی جماعت اپنی شخصیت کے اعتبار سے اس مقام حقیقت تک پہنچ گئی تو اس کے ذریعے اللہ تعالیٰ نے اس کرہ ارض پر دور رس تبدیلیاں کیں اور اس نے تاریخ پر گہرے اثرات چھوڑے اور خود انسانی شخصیت اور سوچ کے دھارے بدل گئے “۔
” اور آئندہ بھی جب کوئی ایسی جماعت اور اس قسم کی مجتمع شخصیت والے لوگ دنیا میں پیدا ہوئے تو انسانیت اور تاریخ پر ایسے ہی گہرے اثرات چھوڑیں گے اور ایسے افراد اور ایسی جماعت ضرور پیدا ہوگی انشاء اللہ ۔ اگرچہ ملت اسلامیہ کے دشمن ایسی جماعت وجود میں آجاتی ہے تو اس کے اندر ایسی قوت ہوتی ہے جس کا مقابلہ رکاوٹ نہیں کرسکتی کیونکہ ایسی جماعت کی قوت فطرت اور کائنات کی قوت سے ہم آہنگ ہوتی ہے اور انسانی قوتوں اور کائناتی قوتوں کا مرجع و مبداء ایک ہوتا ہے۔ “۔
” اس توحید اور وحدت کا فائدہ صرف یہ نہیں ہے کہ انسان کا ایمانی تصور درست ہوجاتا ہے۔ اگرچہ یہ تصحیح اور درستی بذات خود بہت اہم ہے کیونکہ پوری انسانی زندگی کی عمات اس تصحیح پر قائم اور استوار ہوتی ہے ، لیکن اس سے زیادہ اس عقیدے کی اہمیت یہ بھی ہے کہ عقیدہ توحید انسان کے اندر حسن ذوق پیدا کردیتا ہے۔ انسان زندگی کو بڑی خوبی سے گزارتا ہے اور انسانی زندگی کے تمام پہلوؤں کے درمیان ہم آہنگی اور تناسق پیدا ہوجاتا ہے ، کیونکہ اس ہمہ گیر توحید کے نتیجے میں انسانی زندگی کا ہر بڑا چھوٹا پہلو ، اور ہر بڑا چھوٹا عمل عبادت بن جاتا ہے۔ جب انسان اللہ وحدہ کو اپنا حاکم اور رب قرار دیتا ہے اور زند کی کے ہر چھوٹے بڑے معاملے میں فقط اس کی بندگی کرتا ہے ، تو انسان انسانیت کے اعلیٰ ترین مرتبے پر فائز ہوجاتا ہے ، یہی وہ مقام ہے جس کے تمام پہلوؤں پر فقط رسول اللہ فائز ہوئے ہیں۔ یہ مقام ، مقام وحی اور اسراء ہے۔
سُبْحَانَ الَّذِي أَسْرَى بِعَبْدِهِ لَيْلا مِنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ إِلَى الْمَسْجِدِ الأقْصَى الَّذِي بَارَكْنَا حَوْلَهُ لِنُرِيَهُ مِنْ آيَاتِنَا إِنَّه هُوَ السَّمِيعُ الْبَصِيرُ (1) ” بڑی برکت والی ہے وہ ذات جس نے فرقان اپنے بندے پر نازل کیا تاکہ وہ تمام جہانوں کے لیے ڈرانے والے بن جائیں “۔
اور دوسری جگہ ہے :
سُبْحَانَ الَّذِي أَسْرَى بِعَبْدِهِ لَيْلا مِنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ إِلَى الْمَسْجِدِ الأقْصَى الَّذِي بَارَكْنَا حَوْلَهُ لِنُرِيَهُ مِنْ آيَاتِنَا إِنَّه هُوَ السَّمِيعُ الْبَصِيرُ (1) ” پاک ہے وہ
ذات جس نے اپنے بندے کو سیر کرائی رات کے وقت مسجد حرام سے مسجداقصیٰ تک جس کے ماحول کو ہم بابرکت بنایا ہے تا کہ ہم اسے اپنی نشانیاں دکھائیں ، بیشک اللہ سمیع وبصیر ہے “۔
اب ہم بندگی کی توحید کو حاکم اور رب سمجھتے ہوئے اس کی تکمیل بندگی اختیار کرنے کا ایک دوسرا فائدہ قارئین کے سامنے رکھتے ہیں ، اور یہ نتاتے ہیں انسانی زندگی اور غلامی سے نکل آتا ہے ، اور ایک ایسا نظام قائم ہوتا ہے ، جس میں ایک انسان ، انسان کی غلامی سے آزاد ہوتا ہے ۔ انسان ایک مکمل آزادی حاصل کرلینے کے بعد ایک باعزت مقام بھی حاصل کرلیتا ہے ، یہ آزادی اور یہ شرف انسان کو سی بھی غیر اسلامی اور جاہلی نظام میں حاصل نہیں ہوتا ہے ، کیونکہ ان دوسرے نظاموں میں انسان ، انسان کا غلام ہوتا ہے ، اور انسانوں پر انسان کی حاکمیت کے رنگ ڈھنگ اگرچہ مختلف ہوتے ہیں ، بعض اوقات انسان ذہناً دوسروں کا غلام ہوتا ہے ، بعض اوقات وہ غیروں کے سامنے سجدے بھی کرتا ہے ، بعض اوقات وہ دوسرے انسانوں کے بنائے ہوئے ضوابط میں بندھا ہوا ہوتا ہے ، غلامی کی یہ مختلف اقسام ہیں اور نوعیت ایک ہی جیسی ہے کہ ان میں انسان ، انسان کے تابع اور ماتحت ہوتا ہے ۔ کسی نہ کسی طرح ہو بندھا ہوا ہوتا ہے ۔
یہ ممکن نہیں ہے کہ لوگ کسی قانون اور ضابطے کے پابند نہ ہوں ، اگر وہ اللہ کے قوانین اور ضابطوں کے پابند نہ ہوئے تو ظاہر ہے کہ کسی اور کے قانون کے پابند ہوں گے ، یوں وہ دوسرے انسانوں کی غلامی میں پڑجائیں گے ۔
جب بھی انسان غیر اللہ کی غلامی میں گرفتار ہوجائے تو یہ ہر وقت غیر اللہ کی خواہشات اور مرضی کا غلام ہوتا ہے اور اس غلامی کی وجہ سے انسانیت کے مقام سے گر کر حیوانیت کے مرتبے تک جاپہنچتا ہے۔
وَالَّذِينَ كَفَرُوا يَتَمَتَّعُونَ وَيَأْكُلُونَ كَمَا تَأْكُلُ الأنْعَامُ وَالنَّارُ مَثْوًى لَهُمْ (12) ” وہ لوگ جنہوں نے کفر کیا یہ متاع دنیا سے استفادہ کرتے ہیں اور اس طرح کھاتے ہیں جس طرح مویشی کھاتے ہیں ۔ آگ ان
کے لیے جائے آرام ہے “۔ انسان کے لئے اس سے بڑا خسارہ کیا ہو سکتا ہے کہ وہ اپنی انسانیت کھوبیٹھے اور جونہی ایک انسان صرف اللہ کی حاکمیت اور غلامی سے نکلتا ہے وہ پہلے تو اپنی خواہشات اور شہوات کا غلام بن جاتا ہے ، اور یوں وہ حیوانوں کے مرتبے تک جاگرتا ہے ۔ جو صرف اپنی خواہشات کے تابع ہوتے ہیں۔ اس کے بعد پھر وہ اپنے جیسے بندوں کی غلامی میں مبتلا ہوجات ہے ، اس کے بعد ایسے انسان پھر حکام اور رؤسا کے غلام بن جاتے ہیں ، یوں کہ یہ حکام اور رؤسا ان کو ایسے قوانین کے شکنجے میں کس دیتے ہیں ، جو انہوں نے خود اپنے مفاد میں بنائے ہوتے ہیں اور یہ قوانین صرف بنانے والون کے مفادات کا تحفظ کرتے ہیں یہ قانون ساز بعض اوقات ایک بادشاہ اور ڈکٹیٹر کی شکل میں ہوتے ہیں بعض اوقات ایک حاکم طبقے کی صورت میں ہوتے ہیں ، بعض اوقات ایک حکمران نسل کی شکل میں ہوتے ہیں ۔ یہ خصوصیت ان تمام نظاموں میں موجود ہوتی ہے جو اللہ کی ہدایات سے ماخوذ نہیں ہوتے یعنی جو اللہ کی شریعت سے ماخوذ نہیں ہوتے۔
انسان کی طرف سے انسان کی غلامی ، یہ صرف حکام رؤسا اور قنون سازوں تک ہی محدود نہیں ہوتی ۔ یہ غلامی بظاہر ان طبقات تک ۔۔۔۔۔۔۔ نظر آتی ہے ، بلکہ اس طرح ہر انسان بعض دوسری خفیہ قوتون کا بھی غلام ہوتا ہے ۔ بعض اوقات یہ دوسری ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وقوتوں سے بھی زیادہ قوی ہوتی ہیں ۔ مثلاً رسم و رواج اور لباس تک میں انسان جکڑا ہوا ہوتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اپنے آپ کو ترقی پسند ظاہر کرکے اپنے مفادات کے لئے رسومات و لباس وضع کرتے ہیں ۔ یہ لوازمات لباس میں ، گاڑیوں میں بڑی بڑی کوٹھیوں کی شکل میں ، مناظر کی شکل میں اور پھر مخصوص محفلوں کی شکل میں لوگوں پر عائد کئے جاتے ہیں۔ کوئی جاہلیت پرست مرد یا عورت ان ناجائز طور ہر فرض کردہ لوازمات سے نکل نہیں سکتی ۔ بلکہ ان جاہلی رسومات ولوازمات کے گرفتار ان کے دائرے پر ہمیشہ بند اور محدود رہتے ہیں۔ آج انسان جس طرح ان لوازمات اور رسومات کی اندھی پابندی کرتے ہیں اگر وہ اس قسم کی پابندی اللہ کے چند احکام ہی کی کرتے ہیں تو وہ زاہد شب زندہ دار کا مقام تک جاپہنچتے ۔ یہ اندھی غلامی نہیں ہے ، تو اور کیا ہے ، غیر اللہ کی حاکمیت اگر یہ نہیں ہے تو اور کیا ہوگی کہ ایک انسان دوسرے انسانوں کے رائج کئے ہوئے فیشن کا بھی غلام ہو۔
بعض اوقات ایک شریف انسان ایک عورت کو دیکھتا ہے کہ وہ ایسا لباس پہنی ہوئی ہے کہ اس سے اس کا رنگ ڈھنگ نظر آتا ہے ۔ یہ لباس نہ اسکی چکل و صورت کے مناسب ہوتا ہے اور نہ اس کی جسمانی ساخت کے مناسب ہوتا ہے اور پھر یہ عورت ایسے اطوار اور ایسی ادائیں اختیار کرتی ہے کہ جس کی جانب ہر طرف سے اشارے ہوتے ہیں اور وہ ایک مذاق بنی ہوئی ہوتی ہے ۔ لیکن فیشن ہاوسز کی قوت قاہرہ ان لوگون کو مجبور کرتی ہے کہ لوگ ان کی اطاعت کریں اور ان لوگوں کو اس ذلت میں مبتلا کریں ۔ اس طرح کہ یہ لوگ طاقت نہیں رکھتے کہ اس کا انکار کردیں ، جبکہ ان کا پورا ماحول اس غلامی میں گرفتار ہوتا ہے۔ یہ اگر غلامی نہیں ہے تو اور کیا ہے ؟ یہ فیشن ہاؤسز اگر حاکم اور رب نہیں تو اور کیا ہیں ؟
جب لوگ اللہ کی بندگی سے نکلتے ہیں اور غیر اللہ کی بندگی اور غلامی اختیار کرتے ہیں تو وہ کئی قسم کی ذلالتوں میں گرفتار ہوتے ہیں ۔ فیشن کی مذکورہ بالا ذلت تو ان میں سے ایک ہے ، اسی طرح امراء اور رؤسا کی حاکمیت بھی وہ واحد مکروہ صورت نہیں ہے جس میں لوگ مبتلا ہوجاتے ہیں ، جب انسان ، انسان کا غلام ہوتا ہے اور ایک بندہ بندے کی غلامی کررہا ہوتا ہے بلکہ اس کے علاوہ بھی کئی اور خرابیاں ہیں جو ایسے معاشرے میں پیدا ہوجاتی ہیں۔
اس بات سے ہمیں اچھی طرح معلوم ہوجاتا ہے ، صرف اللہ وحدہ کی بندگی کرنے اور صرف اللہ وحدہ کی بندگی کرنے اور صرف اللہ کو رب اور حاکم مان لینے کے اثرات انسان کی روح ، اس کی عزت اور اس کی ثروت پر کس قدر دور رس ہوتے ہیں۔ جب ایک انسان ، انسان کا غلام ہوجائے تو اس کے اخلاق ، اس کی عزت اور اس کی دولت محفوظ نہیں رہنی چاہئے غیر اللہ کی بندگی کی نوعیت جو بھی ہو ، غیر اللہ کی قانون سازی کے میدان میں ہو ، یا رسم و رواج کی شکل میں یا غلط اعتقادات اور تصورات کی صورت میں ہو۔
مثلاً اگر کوئی اعتقادات ، خیالات اور نصورات اور نظریات میں غیر اللہ کا غلام ہوجائے تو وہ ہم پرستی ، قصے کہانیوں اور خرافات میں یقین کرتا ہے ۔ دنیا میں جہاں جہاں بھی بت پرستی کی جاہلیت کا غلبہ ہے ، وہ اس غلط سوچ کی غلامی کے نتیجے میں ہے ایسی گمراہیوں میں عوام مختلف قسم کے اوہام کا شکار ہوتے ہیں ۔ اور ان سے ڈر کر وہ وہمی خداؤں کے درباروں میں نذر ونیاز گراز تے ہیں اور چڑھا وئے چرھاتے ہیں اور قربانیاں بھی دیتے ہیں ۔ بعض اوقات اولاد اور انسانون کی قربانیاں بھی دیتے ہیں اور یہ محض فاسد اور ناکارہ خیالات کی غلامی کیوجہ سے ہوتا ایسے معاشروں میں لوگ محض وہم و گمان کے خود تراشیدہ خداؤں سے ڈرتے ہیں ۔ پھر یہ لوگ کاہنوں اور پجاریوں سے بھی ڈرتے ہیں ، جو ان کو یہ یقین دلاتے ہیں کہ ان کا تعلق ان خداؤں سے ہے ۔ ایسے معاشروں میں لوگ جنوں اور بلاؤں سے بھی ڈرتے ہیں اور ایسے لوگوں کی بھی قدر کرتے ہیں جو یہ باور کرادیں کہ ان کے قبضے میں جن ہیں۔ پھر وہ ایسے بتوں اور آستانوں کے مجاور مذہبی پیشواؤں کی اطاعت کرتے ہیں اور ایسے معاشروں کے تمام لوگ ڈرپوک ، کم ہمت ہوتے ہیں اور ہر وقت ڈرے سہمے ہوتے ہیں ، اور ہر وقت ایک خوف انہیں لاحق ہوتا ہے ۔ اور اسطرح تمام انسانی قوتیں ضائع ہوجاتی ہیں۔
ایک متوسط گھر انا اوسط درجے کی آمدنی رکھنے والا ، تیل ، خوشبو اور سرخی پوڈر ہر ایک بڑی رقم صرف کرتا ہے ۔ بالوں کو سنوارنے اور ان کے بنانے ہر وہ ایک بری رقم خرچ کرتا ہے ۔ پھر بدلتے ہوئے فیشوں کا ساتھ دینے کے لئے ہر سال نئے نئے جوڑے خریدتا ہے ۔ ان جوڑوں کے ساتھ ان کے ہم رنگ بوٹ اور دوسرے ملبوسات بھی فراہم کرتا ہے ۔ اور یہ سب کچھ ان خداؤں کی اتباع میں ہوتا ہے جو پس پردہ بیٹھ کر یہ فیشن گھڑتے ہیں ۔ تفتیش کرنے سے معلوم ہوگا کہ ایک متوسط آمدنی والا گھرانہ اپنی کل آمدنی کا نصف حصہ فیشن اور رسم و رواج پر خرچ کردیتا ہے۔ فیشن اور سرخی پوڈر کے پیچھے بین الاقوامی یہودیت کا ہاتھ ہوتا ہے اور اس نے تمام انسانوں کو فیشن کے جال مین پھنسایا ہوا ہے اور اس کے نتیجے میں ان کی بین الاقوامی کمپنیاں چلتی ہیں۔ اور یہ کمپنیان لوگوں کے مال اور ان کی آبرو اور ناموس پر ڈاکے ڈالتی ہیں اور وہ مجبور محض ہیں۔
اب سب سے آخر میں دیکھیں جب انسان ، انسان کا غلام ہوتا ہے اور آقا انسان کے لئے قانون بناتا ہے تو غلام انسان کو کس قدر قربانی دینا پڑتی ہے اور اللہ کی غلامی اختیار کرنے میں انسان کو کس قدر قربانی دینا نہیں پڑتی ہے معلوم ہوگا کہ انسان کو غیر اللہ کی گلامی میں زیادہ مالی اور جانی قربانیاں دینا پڑتی ہیں ۔
اس کے علاوہ ، وطن کا بت ، قوم کا بت ، طبقات کا بت ، پیداوار اور ان کے علوہ دوسرے بت جنہوں نے الوہیت کا درجہ اختیار کررکھا ہے اور جو اس جہاں میں ان مصنوعی بتوں پر ڈھول بجائے جاتے ہیں اور جھنڈے لہرائے جاتے ہیں اور پھر ان کے بندوں کو دعوت دی جاتی ہے کہ وہ ان بتوں کے نام پر جانی اور مالی قربانیاں دیں اور وہ دیتے ہیں ، بلاترود دیتے ہیں۔ اگر وہ نہیں دیتے تو ان پر اس قدر معاشرتی دباؤہوتا ہے کہ انہیں غدار سمجھا جاتا ہے اور ان کی توہین ہوتی ہے ۔ اگر کسی کے مال اور آبر و اور ان بتوں میں سے کسی بت کا مقابلہ ہو تو مال وآبرو کو ان بتوں پر قربان کردیا جاتا ہے اور ان مصنوعی بتوں کو اس قدر اونچا مقام دیا جاتا ہے کہ ان کے آستانوں پر کوں بہایا جاتا ہے اور اس پوری اسکیم کے پیچھے ان ارباب من دون اللہ کا ہاتھ ہوتا ہے۔۔
وہ تمام قربانیاں جو جہاد فی سبیل اللہ کے لئے دی جاتی ہیں ، اور اس کے لئے کہ اس کرۃ ارض پر صرف اللہ کی بندگی جائے اور اس لیے کہ لوگوں کو بتوں اور طاغور کی غلام سے نجات دالائی جائے اور اس لئے کہ انسان کو اس مرتبہ بلند تک اٹھا دیاجائے اور اس بلند افق تک پہنچادیا جائے جو اللہ نے اس کے لئے مقرر کیا ہے یہ تمام قربانیاں ان قربانیوں سے بہت کم ہیں جو بعض لوگ انسانوں پر انسانوں کی خدائی کا نظام قائم کرنے لے لئے دیتے ہیں ۔ گر کم نہیں تو اس کے برابر ضرور ہیں جو اللہ کی راہ میں جدوجہد کرنے سے کتراتے ہیں اور اس میں شہادت ، جان ، مال اور اولاد کی قربانی دین سے ڈرتے ہیں ، ان کو ذرا یہ سوچنا چاہئے کہ غیر اللہ کی غلامی کی صورت میں انہیں اس سے کہیں زیادہ قربانیاں دینی ہوں گی ۔ بلکہ غیر اللہ کے لئے انہیں جان ومال کے علاوہ عزت وآبرو کی قربانی بھی دینی ہوگی۔
(بہت طویل ہونے کی وجہ سے اس آیت کی مکمل تفسیر شامل نہیں کی جا سکی۔ ہم اس کے لیے معذرت خواہ ہیں۔ برائے مہربانی اس آیت کی تفسیر کا بقیہ حصہ فی ظلال القرآن جلد سے پڑھیں)
0%