اگر اللہ چاہتا تو تمام لوگوں کو ایک ہی فکر و نظر پر پیدا کردیتا ایک ہی صلاحیت سب میں ہوتی۔ ایک ہی چھاپ کے لوگ ہوتے۔ ان میں کوئی تفاوت یا تنوع نہ ہوتا۔ لیکن اللہ کو ایسا مطلوب نہ تھا ، کہ وہ مخلوق جو اس کی جانشین اور خلیفہ ہے وہ اس قسم کی ہو ، اس لیے اس نے لوگوں کو مختلف صلاحیتیں اور میلانات دیئے۔
اللہ کی مشیت ہی ایسی تھی کہ انسان اپنای استعداد اور رحجانات کے لحاظ سے مختلف ہوں۔ اس کے بعد اللہ نے لوگوں کو یہ اختیار بھی دیا کہ وہ جس رحجان کو چاہیں ، اپنائیں ، جو راستہ چاہیں اس پر چل پڑیں اور جس راہ پر چلیں اس کے نتائج بھگیں۔ اگر اچھا راستہ اختیار کریں تو جزاء ملے ، اگر برا راستہ اپنائیں تو سزا ملے۔ یہی اللہ کی سنت ہے جو اس کی مشیت کے مطابق جاری وساری ہے۔ اس لیے جو ہدایت کی راہ لیتا ہے وہ اور جو ضلالت اختیار کرتا وہ دونوں ہی اللہ کی سنت کے مطابق چل رہے ہیں اور یہ سنت اللہ کی مشیت کے مطابق ہے اور سزاء و جزاء بھی اللہ کی سنت اور مشیت کے مطابق ہے۔
یہ اللہ کی اسکیم تھی کہ لوگ امت جامدہ نہ ہوں ، اور کامیات وہ لوگ ہوں جن کو اللہ نے ہدایت کی توفیق دی اور وہ حق پر جمع ہوجائیں ، کیونکہ ہدایت اور سچائی ایک ہی ہوتی ہے۔ ان میں عتدد نہیں ہے۔ اگرچہ وہ اہل ضلال کے خلافا ہوں۔ ہدایت یافتہ لوگوں کے بالمقابل یہ لوگ ہیں۔
وَتَمَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ لأمْلأنَّ جَهَنَّمَ مِنَ الْجِنَّةِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِينَ (11 : 119) “ اور تیرے رب کی وہ بات پوری ہوگئی جو اس نے کہی تھی کہ میں جہنم کو جنوں اور انسانوں سب سے بھر دوں گا۔ ”
اس سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ جو لوگ ہدایت پر جمع ہوئے ان کا انجام اور ہے ، وہ جنت ہے اور وہ ان سے بھر دی جائے گی جس طرح جہنم ان لوگوں سے بھر دی جائے گی جو اہل حق سے مختلف ہیں اور آپس میں بھی مختلف ہیں کیونکہ باطل کے انواع و اقسام بہت ہیں۔
اس سورت کا اختتامیہ رسول اللہ ﷺ سے خطاب پر ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ آپ کی طرف قصص انبیاء وحی کرنے کا مقصد کیا ہے۔ خصوصا اہل ایمان کو اس پر غور کرنا چاہیے۔ جو لوگ ایمان نہیں لاتے ان کو آخری وارننگ دے دی گئی ہے اور بتایا گیا ہے کہ اب ان کے ساتھ تعلق ختم کردیں اور ان کو چھوڑ دیا جائے کہ وہ اس انجام تک جا پہنچیں جو ان کے لیے منتظر ہے اور پردہ غیب کے پیچھے ہے۔ حضور ﷺ سے کہا جاتا ہے کہ آپ اللہ کی بندگی ، اللہ پر بھروسہ کریں اور ان لوگوں کو چھوڑ دیں کہ جو چاہیں کریں۔
0%