یہ مختصر سا اشارہ اس پالیسی کو ظصاہر کرتا ہے جو اللہ تعالیٰ نے اقوام عالم کے بارے میں اختیار کی ہوئی ہے۔ جس قوم کے اندر بگاڑ اور فساد عام ہوجائے ، جس میں انسان انسان کا غلام ہو ، خواہ اس کی کوئی بھی صورت ہو ، لیکن اس میں ایسے لوگ بھی موجود ہوں جو اصلاح احوال کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں تو یہ قوم بچنے والی قوم ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ کسی ایسی قوم کو نیست و نابود نہیں فرماتا۔ لیکن ایسی اقوام جس میں ظالم ظلم کریں اور دندناتے پھریں ، فسادی فساد کرتے رہیں اور کوئی روکنے والا نہ ہو یا ان میں ایسے لوگ ہوں جو ظلم و فساد کو برا سمجھتے ہوں کے وہ صورت حالات کو بدلنے کی طاقت نہ رکھتے ہوں۔ تو ان قوموں کے بارے سنت الہٰیہ اپنا کام کرتی ہے یا تو اس قوم کو نیست و نابود کردیا جاتا ہے یا اس پر ایسا عذاب آتا ہے کہ یہ قوم من حیث القوم بکھر جاتی ہے۔
لہذا وہ لوگ جو اس زمین پر اللہ کی ربوبیت کا نظام قائم کرنا چاہتے ہیں ، ایسا نظام جس میں صرف اللہ حاکم ہو اور وہ لوگ جو زمین میں اللہ کی حاکمیت اور شر یعت کی عدالت قائم کرنا چاہتے ہیں جس میں اللہ کے سوا کسی کا حکم نہ چلتا ہو تو ایسے لوگ دراصل زمین کا نمک ہیں اور ان کی وجہ سے اقوام کی ہلاکت رکی ہوئی ہوتی ہے۔ لہذا وہ لوگ جو دنیا میں اسلامی نظام زندگی کے قیام کے لیے سعی کرتے ہیں۔ وہ بڑی قدر و قیمت کے مالک ہوتے ہیں ، جو ظلم و فساد کے مقابلے میں سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن جاتے ہیں ، نہ صرف یہ کہ لوگ اپنے رب کی طرف سے عائد شدہ فریضہ سرانجام دیتے ہیں بلکہ یہ جس قوم میں کام کرتے ہیں وہ قوم کلی ہلاکت اور من حیث القوم ہلاکت کے عذاب سے بچ جاتی ہے ، ان کی وجہ سے اقوام پر اللہ کا عذاب موقوف رہتا ہے۔
آخری تبصرہ یہ ہے کہ اللہ نے انسان کو پیدا کیا ہے ، بعض انسان بھلائی کی طرف مائل ہوتے ہیں اور بعض بگاڑ کی طرف ، اس کائنات میں اللہ نے یہ سنت بھی جاری کردی ہے کہ کچھ لوگ اس طرف ہوں گے اور کچھ اس طرف
0%