وَأَقِمِ الصَّلاةَ طَرَفَيِ النَّهَارِ وَزُلَفًا مِنَ اللَّيْلِ إِنَّ الْحَسَنَاتِ يُذْهِبْنَ السَّيِّئَاتِ (11 : 114) “ اور دیکھو ، نماز قائم کرو دن کے دونوں سروں پر اور کچھ رات گزرنے رپ درحقیقت نیکیاں برائیوں کو دور کردیتی ہیں۔ ”
اللہ تعالیٰ کو اچھی طرح معلوم تھا کہ یہ وہ زاد سفر ہے جو اس وقت کام آتا ہے جب تمام زاد سفر ختم ہوجاتے ہیں۔ یہ روحانی وقت کا زاد سفر ہے اور یہ انسان کو ایسی قوت دیتا ہے جو عظیم تر مشکلات کو برداشت کرنے کے قابل بناتا ہے۔ اس لیے یہ زاد راہ معراج المومنین ہے اور یہ اہل ایمان کو رب کریم اور رحیم و ودود سے ملاتا ہے جو قریب ہے اور تمام پکاروں کو خوب سنتا ہے اور جب مومن تنہا ہوتا ہے اور پریشان ہوتا ہے تو ایسے حالات میں یہ زاد راہ اس انس و محبت کی باد نسیم چلاتا ہے اور اس طرح اس پر جاہلیت اور کفر کی گٹھن فضا میں قدر کشادگی پیدا ہوجاتی ہے۔
آیت میں دن کے دو سروں کا ذکر کیا گیا ہے یعنی اول اور آخر اور پھر است کے قریب وقت کا۔ اس میں تمام کے تمام اوقات آگئے ۔ اگر نمازوں کی تعداد کا تعین نہیں ہوا ، تعداد کا تعین بہرحال سنت رسول سے ہوا ہے اور نیز متعین اوقات کا تعین بھی سنت سے ہوا ہے۔
اس آیت میں نماز کی اقامت کے حکم ، یعنی پوری پوری ادائیگی کے حکم کے بعد یہ حکم آیا ہے کہ نیکیاں برائیوں کو دور کردیتی ہیں۔ یہ عام آیت ہے اس سے تمام نیکیاں مراد ہیں اور نماز بہرحال عظیم ترین نیکی ہے لہذا یہ بھی اس آیت میں شامل ہے بہرحال “ المحسنات ” نماز کے ساتھ مخصوص نہیں ہے جیسا کہ بعض مفسرین کی رائے ہے۔
ذَلِكَ ذِكْرَى لِلذَّاكِرِينَ (11 : 114) “ یہ ایک یاد دہانی ہے ان لوگوں کے لیے جو خدا کو یاد رکھنے والے ہیں۔ ” نماز اپنی حقیقت کے اعتبار سے ذکر الہی ہے۔ اس لیے یہ صفت نہایت ہی مناسب ہے۔
استقامت انسان تب ہی اختیار کرسکتا ہے جب اس میں مشکلات پر صبر کرنے کا حوصلہ ہو ، نیز اللہ کی سنت کے مطابق منکرین کے انجام بد سے دو چار ہونے کے لیے ایک مہلت ہوتی ہے اور اس کا انتظار کرنا پڑتا ہے اور یہ اتنظار بھی صبر کا محتاج ہے لہذا استقامت اور تمام پچھلی ہدایات پر کامیابی سے عمل پیرا ہونے کے لیے حکم دیا جاتا ہے کہ صبر کرو۔
0%