You are reading a tafsir for the group of verses 11:112 to 11:115
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
3

دعوتِ حق کا ابتدائی استقبال نظر انداز کرنے کی صورت میں ہوتا ہے۔ اس کے بعد مخالفت شروع ہوتی ہے، یہاں تک کہ مخالفت اپنے آخری نقطہ پر پہنچ جاتی ہے۔ یہ داعیوں کے لیے بڑا نازک وقت ہوتا ہے۔ اس وقت ان کے درمیان دوقسم کے ذہن ابھرتے ہیں۔ کچھ لوگ جھنجھلا کر یہ چاہنے لگتے ہیں کہ مخالفین سے ٹکرا جائیں اور ان لوگوں سے قوت کے ذریعے نپٹیں جن کے لیے نظری دلائل بے اثر ثابت ہوئے ہیں۔ دوسرا ذہن وہ ہے جو یہ سوچتاہے کہ مخاطبین کے لیے قابل قبول بنانے کی خاطر اپنی دعوت میں کچھ ترمیم کرلی جائے۔ دعوت کے ان اجزاء کا ذکر نہ کیا جائے جن کو سن کر مخاطبین بگڑ جاتے ہیں۔

پہلا رویہ اگر حد سے تجاوز کرناہے تو دوسرا رویہ باطل سے مصالحت کرنا۔ اور یہ دونوں ہی اللہ کی نظر میں یکساں طورپر غلط ہیں۔ خاص طور پر دوسری چیز (قابل قبول بنانے کی خاطر تبدیلی) تو جرم کا درجہ رکھتی ہے۔ کیوں کہ اللہ تعالیٰ کو سب سے زیادہ جو چیز مطلوب ہے، وہ حق کا اعلان ہے۔ اور مصالحت کی صورت میں حق کا واضح اعلان نہیں ہوسکتا۔

دعوت کی راہ میں جب کوئی مشکل پیش آئے تو داعی کو چاہیے کہ خدا کی طرف زیادہ سے زیادہ رجوع کرے کیونکہ سب کچھ کرنے والا وہی ہے۔ خدا کی مدد ہی تمام مشکلات کے حل کا واحد یقینی ذریعہ ہے۔

Maximize your Quran.com experience!
Start your tour now:

0%