فَاسْتَقِمْ كَمَا أُمِرْتَ وَمَنْ تَابَ مَعَكَ (112 : 11) “ پس اے نبی ﷺ تم اور تمہارے وہ ساتھی جو (کفر و بغاوت سے ایمان و اطاعت کی طرف) پلٹ آئے ہیں ، ٹھیک ٹھیک راہ راست پر ثابت قدم رہو جیسا کہ تمہیں حکم دیا گیا ہے۔ ”
اس حکم کی مشکلات اور شدت اور ہیبت کو حضور ﷺ نے محسوس فرمایا تھا۔ حضور ﷺ سے روایت میں آتا ہے کہ “ مجھے ہود اور اس کے ساتھی سورتوں نے بوڑھا کردیا ہے۔ ” استقامت کا مفہوم ہے کہ اعتدال سے چلو اور اسلامی منہاج کے مطابق سیدھے چلو ، کوئی انحراف نہ ہونے پائے۔ ہر وقت غور فکر کی ضرورت پڑتی ہے اور ہر وقت حدود اللہ پر نظر رکھنے کی ضرورت پڑتی ہے ہے اور ان انسانی میلانات اور رحجانات کو ضبط کرنے کی ضرورت پڑتی ہے جو کبھی زیادہ ہوتے ہیں اور کبھی کم ، غرض کسی بھی تحریک میں یہ ایک دائمی اور مسلسل ڈیوٹی ہے اور زندگی کی ہر حرکت اور ہر سکون میں اسے ملحوظ خاطر رکھنا پڑتا ہے۔
وَلا تَطْغَوْا (112 : 11) “ اور بندگی کی حد سے تجاوز نہ کرو ” یہاں اس بات کو سمجھ لینا ضروری ہے کہ استقامت کے حکم کے بعد یہ نہیں اس لیے نہیں ہے کہ استقامت میں قصور نہ کرو ، بلکہ یہ نہیں طغیان اور حد سے گزرنے کی نہی ہے ، یہ اس لیے وارد ہوئی ہے کہ استقامت کے مسلسل حکم کے نتیجے میں انسان کے ذہن میں اس قدر بیداری پیدا ہوجاتی ہے اور انسان اس قدر حزم اور احتیاط کرنے لگتا ہے کہ وہ غلو اور مبالغے کے درجے تک پہنچ جاتا ہے اور اس غلو اور مبالغے کے نتیجے میں “ الدین یسر ” بن جاتا ہے دین میں افراط وتفریط شروع ہوجاتی ہے۔ یہ نکتہ بہت اہم ہے اور ایک مسلمان کو معتدل مزاج اور صراط مستقیم پر گامزن رہنا چاہیے ، غافل بھی نہیں ہونا چاہیے اور غالی بھی نہیں۔
إِنَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرٌ (11 : 112) “ جو کچھ تم کر رہے ہو ، اس پر تمہارا رب نگاہ رکھتا ہے۔ ” بصیر ، بصیرت کا لفظ یہاں پر محل ہے ، یعنی دیکھتا بھی ہے اور اس کا دیکھنا سرسری نہیں ہے۔ بصیرت اور گہرائی سے دیکھتا ہے لہذا اے پیغمبر ﷺ تم اور تمہارے ساتھی خدا سے ڈرتے ہوئے سیدھی راہ پر گامزن رہو۔
0%