You are reading a tafsir for the group of verses 11:110 to 11:111
ولقد اتينا موسى الكتاب فاختلف فيه ولولا كلمة سبقت من ربك لقضي بينهم وانهم لفي شك منه مريب ١١٠ وان كلا لما ليوفينهم ربك اعمالهم انه بما يعملون خبير ١١١
وَلَقَدْ ءَاتَيْنَا مُوسَى ٱلْكِتَـٰبَ فَٱخْتُلِفَ فِيهِ ۚ وَلَوْلَا كَلِمَةٌۭ سَبَقَتْ مِن رَّبِّكَ لَقُضِىَ بَيْنَهُمْ ۚ وَإِنَّهُمْ لَفِى شَكٍّۢ مِّنْهُ مُرِيبٍۢ ١١٠ وَإِنَّ كُلًّۭا لَّمَّا لَيُوَفِّيَنَّهُمْ رَبُّكَ أَعْمَـٰلَهُمْ ۚ إِنَّهُۥ بِمَا يَعْمَلُونَ خَبِيرٌۭ ١١١
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
3

’’موسی کی کتاب میں اختلاف‘‘ کا مطلب یہ ہے کہ اس کے مخاطبین اس کے بیانات کے بارے میں کئی رائے ہوگئے۔ ان میں سے کچھ لوگوں نے جھٹلایا اور کچھ لوگوں نے تسلیم کیا (فَاخْتَلَفَ فِي ذَلِكَ الْكِتَابِ قَوْمُ مُوسَى فَكَذَّبَ بِهِ بَعْضُهُمْ، وَصَدَّقَ بِهِ بَعْضُهُمْ) تفسیر الطبری، جلد 12 ، صفحہ 592 ۔

جب بھی کوئی بات کہی جائے تو آدمی اس کے بارے میں ہمیشہ دو چیزوں کے درمیان ہوتاہے۔ ایک، صحیح تعبیر۔ دوسري، غلط تعبیر۔ اگر سننے والے فی الواقع سنجیدہ ہوں تو وہ ہمیشہ ایک ہی صحیح تعبیر تک پہنچیں گے۔ ان کی سنجیدگی ان کے لیے اتحاد رائے کی ضامن بن جائے گی۔ اس کے برعکس، اگر وہ بات کے بارے میں سنجیدہ نہ ہوں تو وہ اس کو کوئی اہمیت نہ دیں گے اور اپنے خیال کے مطابق اس کی مختلف تعبیریں کریں گے۔ کوئی ایک بات کہے گا، کوئی دوسری بات۔ اس طرح ان کی غیر سنجیدگی انھیں اختلاف رائے تک پہنچا دے گی۔

یہ صورت تمام پیغمبروں کے ساتھ پیش آئی۔ اس کے باوجود خدا اس کو گوارا کرتا رہا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ خدا نے موجودہ دنیا کو عمل کی جگہ بنایا ہے اور اگلی آنے والی دنیا کو بدلہ پانے کی جگہ۔ خدا کی یہی سنت ہے جس کی بنا پر لوگوں کو مکمل آزادی ملی ہوئی ہے۔ موجودہ صورتِ حال اسی مہلت امتحان کی بنا پر ہے، نہ کہ خدا کے عجز یا لوگوں کے کسی استحقاق کی بنا پر۔