يَوْمَ يَأْتِ لا تَكَلَّمُ نَفْسٌ إِلا بِإِذْنِهِ (105 : 11) “ جب وہ آئے گا تو کسی کو بات کرنے کی مجال نہ ہوگی ، الا یہ کہ خدا کی اجازت سے کچھ عرض کرے۔ ” سب لوگوں پر ہیبت طاری ہوگی اور خوفناک سکوت کا ماحول ہوگا ، لوگ سہمے ہوں گے ، وہاں بات اجازت سے ہوگی مگر اجازت طلب کرنا کارے دارد۔ یہ اللہ ہی ہوگا جو کسی کو اجازت دے دے ، تو کچھ عرض کی جاسکتے گی۔
اب لوگوں کو ان کے انجام کے مطابق تقسیم کردیا جائے گا :
فَمِنْهُمْ شَقِيٌّ وَسَعِيدٌ (11 : 105) “ پھر کچھ لوگ اس روز بدبخت ہوں گے اور کچھ نیک بخت۔ ” انداز تعبیر ایسا ہے کہ ہم دیکھتے ہیں کہ ہم اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں کہ جو لوگ بدبختی کا شکار ہوئے وہ دوزخ میں پڑے ہوئے ہیں ، ان کی سانس پھولی ہوئی ہے اور ہانپ رہے ہیں اور پھنکارے مار رہے ہیں۔ اور ہم دیکھتے ہیں کہ جو لوگ جنت میں ہیں وہ بھی نظر آتے ہیں اور ان کے لیے ایسے عطیات ہیں جو دائمی ہیں اور ختم ہونے والے نہیں ہیں۔