You are reading a tafsir for the group of verses 11:102 to 11:105
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
3

موجودہ دنیا میں انسان کو رہنے اور بسنے کا موقع صرف امتحان کی بنا پر حاصل ہے۔ پیغمبروں کی ذریعہ اتمام حجت کے بعد بھی جو لوگ منکر بنے رہیں وہ خدا کی زمین میں مزید ٹھہرنے کا حق کھودیتے ہیں،یہی وجہ ہے کہ پیغمبروں کے منکرین کو خدا نے ہلاک کردیا (العنکبوت، 35:40 ) یہ ہلاکت زیادہ تر اس طرح ہوئی کہ عام زمینی آفتوں میں شدت پیدا کردی گئی مثلاً آندھی، سیلاب، یا زلزلہ جو عام حالات میں ایک حد کے اندر رہتے ہیں، ان کو غیر محدود طورپر شدید کردیا گیا۔

ماضی میں اس طرح قوموں کی تباہی کے واقعات کو جغرافی تاریخ کے علماء موسمی تغیّرات (climatic pulsations) کانام دیتے ہیں۔ گویا جو کچھ ہوا وہ محض جغرافی اتھل پتھل کے نتیجہ میں ہوا۔ اگرچہ وہ اس واقعہ کی کوئی توجیہہ نہیں کر پاتے کہ اس قسم کے شدید موسمی تغیرات صرف ماضی میں کیوں پیش آئے۔ وہ اب (ختم نبوت کے بعد) کیوں نہیں پیش آتے۔

حقیقت یہ ہے کہ یہ واقعات سادہ معنوں میں صرف جغرافی واقعات نہ تھے بلکہ یہ حکم خداوندی کا ظہور تھا۔ ان سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ موجودہ دنیا کا نظام عدل پر قائم ہے۔ یہاں خود قانون قدرت کے تحت لازماً ایسا ہونے والا ہے کہ ظالم اپنے ظلم کی سزا پائے اور عادل کو اپنے عدل کا انعام ملے۔ ان واقعات کو موسمی تغیرات کہنا ان کو جغرافیہ کے خانہ میں ڈال دینا ہے۔ اس کے برعکس، اگر ان کو خدائی تغیرات مانا جائے تووہ آدمی کے ليے خوفِ خدا اور فکر آخرت کا زبردست سبق بن جائیں گے۔

پیغمبروں کے زمانہ میں جو واقعات پیش آئے وہ گویا بڑی قیامت سے پہلے اس کی ایک چھوٹی نشانی تھے۔ ان میں ایسا ہوا کہ منکرین کو ایک مدّت تک ڈھیل دی گئی۔ اس کے بعد خدا کا فیصلہ ظاہر ہوا تو سب کے سب ہلاک کرديے گئے۔ صرف وہ لوگ بچ سکے جو حق کا ساتھ دینے کی وجہ سے خداکے نزدیک نیک بخت قرار پا چکے تھے۔ ان کے علاوہ جو لوگ خدا کی میزان میںسرکش اور بد بخت تھے وہ لازمی طورپر عذا ب کی زد میں آئے۔ حتی کہ پیغمبروں کی سفارش بھی ان کو بچا نہ سکی، جیسا کہ حضرت نوح اور حضرت ابراہیم کی مثال سے ثابت ہوتاہے۔