You are reading a tafsir for the group of verses 11:100 to 11:101
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
3

قدیم تاریخوںمیں بادشاہوں اور فوجی جنرلوں کے حالات درج ہیں مگر نبیوں اور ان کی اقوام کے حالات کسی تاریخ میں درج نہیں۔ دوسری طرف قرآن کو دیکھيے تو اس میں سب سے زیادہ اہتمام کے ساتھ نبیوںاور ان کی قوموں کے حالات ملتے ہیں۔ بقیہ باتیں اس نے اس طرح نظر انداز کردی ہیں جیسے اس کی نظر میں ان کی کوئی اہمیت نہیں۔ انسان نے جو تاریخ لکھی اس میں اس نے وہی بات چھوڑدی جو خالق کے نزدیک سب سے زیادہ قابل تذکرہ تھی۔

دور نبوت کی ان ہلاک شدہ بستیوں میں سے بعض بستیاں ایسی ہیں، جو ابھی تک آباد ہیں۔ جیسے مصر جو فرعون کا مقام تھا دوسری طرف قوم ہود اور قوم لوط جیسی اقوام ہیں جن کی بستیاں ان کے باشندوں سمیت ناپید ہوگئیں۔ البتہ کہیں کہیں ان کے کچھ نشانات کھنڈر کی صورت میں کھڑے ہیں یا زمین کی کھدائی سے برآمد كيے گئے ہیں۔

ان بستیوں کا ہلاک کیا جانا بظاہر ایک ظالمانہ واقعہ معلوم ہوتا ہے۔ مگر جب یہ دیکھيے کہ کیوں ایسا ہوا تو عین مطابق حقیقت بن جاتا ہے۔ کیونکہ یہ ان کی اپنی بد عملی کے نتائج تھے۔ جو کچھ ہوا وہ ان کی بدکرداری کے بعد ہوا، نہ کہ ان کی بدکرداری سے پہلے۔

جب بھی آدمی سرکشی اور ظلم کرتاہے تو وہ کسی برتے پر کرتا ہے۔ وہ کچھ چیزوں یا ہستیوں کو اپنا سہارا سمجھ لیتاہے اور خیال کرتا ہے کہ یہ مشکل وقتوں میںاس کے مدد گار ثابت ہوں گے۔ مگر یہ سہارے اسی وقت تک سہارے ہیں جب تک خدا ڈھیل دے رہا ہو۔ جب خدا کے قانون کے مطابق ڈھیل کی مدّت ختم ہوجائے اور خدا اپنا آخری فیصلہ ظاہر کردے اس وقت آدمی کو معلوم ہوتاہے کہ وہ سب محض جھوٹے مفروضے تھے جن کو اس نے اپنی نادانی کی وجہ سے سہارا سمجھ لیا تھا۔