37:88至37:93节的经注
فنظر نظرة في النجوم ٨٨ فقال اني سقيم ٨٩ فتولوا عنه مدبرين ٩٠ فراغ الى الهتهم فقال الا تاكلون ٩١ ما لكم لا تنطقون ٩٢ فراغ عليهم ضربا باليمين ٩٣
فَنَظَرَ نَظْرَةًۭ فِى ٱلنُّجُومِ ٨٨ فَقَالَ إِنِّى سَقِيمٌۭ ٨٩ فَتَوَلَّوْا۟ عَنْهُ مُدْبِرِينَ ٩٠ فَرَاغَ إِلَىٰٓ ءَالِهَتِهِمْ فَقَالَ أَلَا تَأْكُلُونَ ٩١ مَا لَكُمْ لَا تَنطِقُونَ ٩٢ فَرَاغَ عَلَيْهِمْ ضَرْبًۢا بِٱلْيَمِينِ ٩٣
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
3

فنظر نظرۃ فی النجوم ۔۔۔۔۔ ضربا بالیمین (88 – 93) “۔

روایات میں آتا ہے کہ اس وقت عید یا میلے کا دن تھا۔ شاید نوروز ہو۔ اس دن لوگ شہر سے باہر چلے جاتے تھے ۔ رواج کے مطابق وہ اپنے الہوں کے سامنے برائے تبرک پھل رکھتے تھے۔ اور سیر اور تفریح کے بعد وہ یہ مبارک کھانے لیتے تھے۔ حضرت ابراہیم نے جب معقول باتوں کے مقابلے میں مایوس کن رویہ پایا اور اس نتیجے تک پہنچے کہ ان کے عقائد اور نظریات کے اندر اس قدر بگاڑ پیدا ہوگیا ہے کہ اب ان کی اصلاح کی کوئی صورت نہیں ہے۔ تو انہوں نے دل میں ۔۔۔۔ ایک فیصلہ کرلیا کہ ان کو ذرا تلخ سبق دیا جائے۔ آپ نے اپنے منصوبے کے لیے اس دن کا انتظار فرمایا۔ کیونکہ اس دن پر یہ لوگ عبادت گاہوں کو خالی چھوڑ کر باہر چلے جاتے تھے۔ اور حضرت کے لیے اپنے منصوبے پر عمل کرنا ممکن ہو سکتا تھا۔ ان لوگوں کی تنگ نظری اور کج فہمی حضرت ابراہیم کے لیے اب قابل برداشت نہ رہی تھی۔ جب دوسرے لوگوں نے ان سے کہا کہ تم عبادت گاہ کو چھوڑکر ہمارے ساتھ چلو تو آپ نے آسمان کی طرف دیکھ کر کہا کہ میری طبیعت خراب ہے۔ میں سیرو تفریح کے لیے نہیں جاسکتا۔ کیونکہ سیرو تفریح اور میلوں میں تو وہ لوگ جاتے ہیں جو عیش و عشرت کرنا چاہیں ، جن کے دل خالی ہوں اور ان کے لیے کوئی دلچسپی یا اہم کام پیش نظر نہ ہو۔ حضرت ابراہیم تو ہر وقت پریشان تھے۔ اپنی قوم کی اس بیماری کی وجہ سے۔ اس لیے ان کے قلب سلیم کو سیرو تفریح میں خوشی کب نصیب ہوئی تھی۔

بہر حال لوگ جلدی میں تھے تاکہ جائیں اور اپنے رسم و رواج کے مطابق اپنی عید منائیں۔ اس لیے انہوں نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی کوئی زیادہ فکر نہ کی بلکہ ان کو چھوڑ کر چلے گئے اور اپنی خوشیاں منانے لگے۔ اور حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو وہ موقعہ مل گیا جس کی تلاش میں تھے۔

حضرت ابراہیم فوراً ان کے نام نہاد الہوں کے پاس پہنچے۔ ان کے سامنے قسم قسم کے کھانے اور تازہ پھل رکھے ہوئے تھے۔ بطور مزاح حضرت نے فرمایا تم کھاتے نہیں ہو ؟ ظاہر ہے کہ بتوں نے اس مزاح کا کیا جواب دیتا تھا ۔ اب آپ نے ذرا غصے اور کھلے مزاح کے ساتھ کہا تمہیں کیا ہوگیا ہے۔ تم بات کیوں نہیں کرتے ۔ بعض اوقات انسان ایسی چیز سے بطور مزاح ہمکلام ہوتا ہے جس کے بارے میں اس کو پتہ ہوتا ہے کہ یہ نہیں سنتی اور نہ جواب دے سکتی ہے۔ حقیقت کا علم ہوتے ہوئے بھی انسان ایسی باتیں کرتا ہے۔ یہ بات دراصل حضرت ان لوگوں کے پوچ اور غلط عقائد سے تنگ آکر ، کر رہے تھے۔ ظاہر ہے کہ بتوں نے جواب تو نہ دینا تھا اور نہ دیا۔ اب حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی زبان کے بجائے آپ کے ہاتھ حرکت میں آگئے۔

فراح علیھم ضرنا بالیمین (37: 93) ” اس کے بعد وہ ان پر پل پڑا اور سیدھے ہاتھ سے خوب ضربیں لگائیں “۔ اب آپ کی بیماری دل کی گرفتگی اور پریشانی دور ہوئی۔ بالفاظ دیکگر آپ کا دل ٹھنڈا ہوا۔