قیامت کے دن جبکہ کافر آگ کے کنوؤں میں ہوں گے اور اللہ کے عذابوں کو چکھ چکے ہوں گے اور تمام ہونے والے عذاب نگاہوں کے سامنے ہوں گے اس وقت خود اپنے نفس کے دشمن بن جائیں گے اور بہت سخت دشمن ہو جائیں گے۔ کیونکہ اپنے برے اعمال کے باعث جہنم واصل ہوں گے۔ اس وقت فرشتے ان سے بہ آواز بلند کہیں گے کہ آج جس قدر تم اپنے آپ سے نالاں ہو اور جتنی دشمنی تمہیں خود اپنی ذات سے ہے اور جس قدر تم آج اپنے تئیں کہہ رہے ہو اس سے بہت زیادہ برے اللہ کے نزدیک تم دنیا میں تھے جبکہ تمہیں اسلام و ایمان کی دعوت دی جاتی تھی اور تم اسے مانتے نہ تھے، اس کے بعد کی آیت «كَيْفَ تَكْفُرُوْنَ باللّٰهِ وَكُنْتُمْ اَمْوَاتًا فَاَحْيَاكُمْ ۚ ثُمَّ يُمِيْتُكُمْ ثُمَّ يُحْيِيْكُمْ ثُمَّ اِلَيْهِ تُرْجَعُوْنَ» [ 2- البقرة: 28 ] کے ہے۔
حضرت سدی رحمہ اللہ فرماتے ہیں یہ دنیا میں مار ڈالے گئے پھر قبروں میں زندہ کئے گئے اور جواب سوال کے بعد مار ڈالے گئے پھر قیامت کے دن زندہ کر دیئے گئے۔ حضرت ابن زیدرحمہ اللہ فرماتے ہیں آدم علیہ السلام کی پیٹھ سے روزِ میثاق کو زندہ کئے گئے پھر ماں کے پیٹ میں روح پھونکی گئی پھر موت آئی پھر قیامت کے دن جی اٹھے۔ لیکن یہ دونوں قول ٹھیک نہیں اس لیے کہ اس طرح تین موتیں اور تین حیاتیں لازم آتی ہیں اور آیت میں دو موت اور دو زندگی کا ذکر ہے،
صحیح قول سیدنا ابن مسعودرضی اللہ عنہ اور سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ اور ان کے ساتھیوں کا ہے۔ [ یعنی ماں کے پیٹ سے پیدا ہونے کی ایک زندگی اور قیامت کی دوسری زندگی، پیدائش دنیا سے پہلے کی موت اور دنیا سے رخصت ہونے کی موت یہ دو موتیں اور دو زندگیاں مراد ہیں ] مقصود یہ ہے کہ اس دن کافر اللہ تعالیٰ سے قیامت کے میدان میں آرزو کریں گے کہ اب انہیں دنیا میں ایک مرتبہ اور بھیج دیا جائے۔
جیسے فرمان ہے «وَلَوْ تَرٰٓي اِذِ الْمُجْرِمُوْنَ نَاكِسُوْا رُءُوْسِهِمْ عِنْدَ رَبِّهِمْ رَبَّنَآ اَبْصَرْنَا وَسَمِعْنَا فَارْجِعْنَا نَعْمَلْ صَالِحًا اِنَّا مُوْقِنُوْنَ» [ 32- السجدة: 12 ] ، تو دیکھے گا کہ گنہگار لوگ اپنے رب کے سامنے سرنگوں ہوں گے اور کہہ رہے ہوں گے کہ اللہ ہم نے دیکھ سن لیا اب تو ہمیں پھر دنیا میں بھیج دے تو نیکیاں کریں گے اور ایمان لائیں گے۔ لیکن ان کی یہ آرزو قبول نہ فرمائی جائے گی۔ پھر جب عذاب و سزا کو جہنم اور اس کی آگ کو دیکھیں گے اور جہنم کے کنارے پہنچا دئیے جائیں گے تو دوبارہ یہی درخواست کریں گے اور پہلی دفعہ سے زیادہ زور دے کر کہیں گے جیسے ارشاد ہے «وَلَوْ تَرَىٰ إِذْ وُقِفُوا عَلَى النَّارِ فَقَالُوا يَا لَيْتَنَا نُرَدُّ وَلَا نُكَذِّبَ بِآيَاتِ رَبِّنَا وَنَكُونَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ بَلْ بَدَا لَهُم مَّا كَانُوا يُخْفُونَ مِن قَبْلُ وَلَوْ رُدُّوا لَعَادُوا لِمَا نُهُوا عَنْهُ وَإِنَّهُمْ لَكَاذِبُونَ» [ 6-سورة الأنعام: 28، 27 ] یعنی کاش کے تو دیکھتا جبکہ وہ جہنم کے پاس ٹھہرا دیئے گئے ہوں گے کہیں گے کاش کے ہم دنیا کی طرف لوٹائے جاتے اور اپنے رب کی باتوں کو نہ جھٹلاتے اور با ایمان ہوتے، بلکہ ان کے لیے وہ ظاہر ہو گیا جو اس سے پہلے وہ چھپا رہے تھے۔
اور بالفرض یہ واپس لوٹائے بھی جائیں تو بھی دوبارہ یہ وہی کرنے لگیں گے جس سے منع کئے گئے ہیں۔ یہ ہیں ہی جھوٹے۔ اس کے بعد جب انہیں جہنم میں ڈال دیا جائے گا اور عذاب شروع ہو جائیں گے اس وقت اور زیادہ زور دار الفاظ میں یہی آرزو کریں گے وہاں چیختے چلاتے ہوئے کہیں گے «رَبَّنَآ اَخْرِجْنَا نَعْمَلْ صَالِحًا غَيْرَ الَّذِيْ كُنَّا نَعْمَلُ» [ 35- فاطر: 37 ] ، اے ہمارے پروردگار ہمیں یہاں سے نکال دے ہم نیک اعمال کرتے رہیں گے ان کے خلاف جو اب تک کرتے رہے جواب ملے گا کہ کیا ہم نے انہیں اتنی عمر اور مہلت نہ دی تھی کہ اگر یہ نصیحت حاصل کرنے والے ہوتے تو یقیناً کر سکتے۔ بلکہ تمہارے پاس ہم نے آگاہ کرنے والے بھی بھیج دیئے تھے اب اپنے کرتوت کا مزہ چکھو ظالموں کا کوئی مددگار نہیں۔
کہیں گے کہ «رَبَّنَا أَخْرِجْنَا مِنْهَا فَإِنْ عُدْنَا فَإِنَّا ظَالِمُونَ قَالَ اخْسَئُوا فِيهَا وَلَا تُكَلِّمُونِ» [ 23-المؤمنون: 107، 108 ] اللہ ہمیں یہاں سے نکال دے اگر ہم پھر وہی کریں تو یقیناً ہم ظالم ٹھہریں گے۔ اللہ فرمائے گا دور ہو جاؤ اسی میں پڑے رہو اور مجھ سے کلام نہ کرو۔
اس آیت میں ان لوگوں نے اپنے سوال سے پہلے ایک مقدمہ قائم کر کے سوال میں ایک گونہ لطافت کر دی ہے، اللہ تعالیٰ کی قدرت کاملہ کو بیان کیا کہ باری تعالیٰ ہم مردہ تھے تو نے ہمیں زندہ کر دیا پھر مار ڈالا پھر زندہ کر دیا۔ پھر تو ہر اس چیز پر جسے تو چاہے قادر ہے۔ ہمیں اپنے گناہوں کا اقرار ہے یقیناً ہم نے اپنی جانوں پر ظلم و زیادتی کی اب بچاؤ کی کوئی صورت بنا دے۔ یعنی ہمیں دنیا کی طرف پھر لوٹا دے جو یقیناً تیرے بس میں ہے ہم وہاں جا کر اپنے پہلے اعمال کے خلاف اعمال کریں گے اب اگر ہم وہی کام کریں تو بیشک ہم ظالم ہیں۔ انہیں جواب دیا جائے گا کہ اب دوبارہ دنیا میں جانے کی کوئی راہ نہیں ہے۔ اس لیے کہ اگر دوبارہ چلے بھی جاؤ گے تو پھر بھی وہی کرو گے جس سے منع کئے گئے۔ تم نے اپنے دل ہی ٹیڑھے کر لیے ہیں تم اب بھی حق کو قبول نہ کرو گے بلکہ اس کے خلاف ہی کرو گے۔ تمہاری تو یہ حالت تھی کہ جہاں اللہ واحد کا ذکر آیا وہیں تمہارے دل میں کفر سمایا۔ ہاں اس کے ساتھ کسی کو شریک کیا جائے تو تمہیں یقین و ایمان آ جاتا تھا۔ یہی حالت پھر تمہاری ہو جائے گی۔ دنیا میں اگر دوبارہ گئے تو پھر بھی یہی کرو گے۔
پس حاکم حقیقی جس کے حکم میں کوئی ظلم نہ ہو سرا سر عدل و انصاف ہی ہو وہ اللہ تعالیٰ ہی ہے جسے چاہے ہدایت دے جسے چاہے نہ دے جس پر چاہے رحم کرے جسے چاہے عذاب کرے اس کے حکم وعدل میں کوئی اس کا شریک نہیں۔ وہ اللہ اپنی قدرتیں لوگوں پر ظاہر کرتا ہے۔ زمین و آسمان میں اس کی توحید کی بےشمار نشانیاں موجود ہیں۔ جن سے صاف ظاہر ہے کہ سب کا خالق سب کا مالک سب کا پالنہار اور حفاظت کرنے والا وہی ہے۔
وہ آسمان سے روزی یعنی بارش نازل فرماتا ہے جس سے ہر قسم کے اناج کی کھیتیاں اور طرح طرح کے عجیب عجیب مزے کے مختلف رنگ روپ اور شکل وضع کے میوے اور پھل پھول پیدا ہوتے ہیں حالانکہ پانی ایک زمین ایک۔ لہٰذا اس سے بھی اس کی شان ظاہر ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ عبرت و نصیحت فکرو غور کی توفیق ان ہی کو ہوتی ہے جو اللہ کی طرف رغبت و رجوع کرنے والے ہوں، اب تم دعا اور عبادت خلوص کے ساتھ صرف اللہ واحد کی کیا کرو۔ مشرکین کے مذہب و مسلک سے الگ ہو جاؤ۔
سیدنا عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما ہر فرض کے سلام کے بعد یہ پڑھتے تھے۔ «لا إلَهَ إِلاَّ اللهُ وَحْدَهُ لا شَرِيكَ لَهُ، لَهُ المُلْكُ ؛ وَلَهُ الحَمْدُ، وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ . لا حول ولا قوة إلا بالله، لا إله إلا الله ولا نعبد إلا إياه، له النعمة وله الفضل، وله الثناء الحسن، لا إله إلا الله مخلصين له الدين ولو كره الكافرون» اور فرماتے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی ہر نماز کے بعد انہیں پڑھا کرتے تھے۔ [مسند احمد:4/4:صحیح] یہ حدیث مسلم ابوداؤد وغیرہ میں بھی ہے [صحیح مسلم:594] ابن ابی حاتم میں ہے اللہ تبارک و تعالیٰ سے دعا کرو اور قبولیت کا یقین کامل رکھو اور یاد رکھو کہ اللہ تعالیٰ بےپرواہ اور دوسری طرف کے مشغول دل کی دعا نہیں سنتا۔ [سنن ترمذي:3479،قال الشيخ الألباني:حسن]
0%