چونکہ سورت کے شروع میں سیدنا آدم علیہ السلام کا قصہ بیان ہوا تھا۔ پھر اس کے متعلقات بیان ہوئے اور اس کے متصل اور بیانات فرما کر اب پھر اور انبیاء علیہم السلام کے واقعات کے بیان کا آغاز ہوا اور پے در پے ان کے بیانات ہوئے۔ سب سے پہلے نوح علیہ السلام کا ذکر ہوا کیونکہ سیدنا آدم علیہ السلام کے بعد سب سے پہلے پیغمبر اہل زمین کی طرف آپ ہی آئے تھے۔ آپ نوح بن لامک بن متوشلخ بن اخنوخ (یعنی ادریس علیہ السلام یہی پہلے وہ شخص ہیں جنہوں نے قلم سے لکھا) بن برد بن مہلیل بن قنین بن یانشن بن شیث بن آدم علیہ السلام۔
ائمہ نسب امام محمد بن اسحاق رحمہ اللہ وغیرہ نے آپ کا نسب نامہ اسی طرح بیان فرمایا ہے۔
امام صاحب فرماتے ہیں: نوح علیہ السلام جیسا کوئی اور نبی امت کی طرف سے ستایا نہیں گیا۔ ہاں انبیاء قتل ضرور کئے گئے۔ انہیں نوح اسی لیے کہا گیا کہ یہ اپنے نفس کا رونا بہت روتے تھے۔ آدم اور نوح علیہم السلام کے درمیان دس زمانے تھے جو اسلام پر گزرے تھے۔ اصنام پرستی کا رواج اس طرح شروع ہوا کہ جب اولیاء اللہ فوت ہو گئے تو ان کی قوم نے ان کی قبروں پر مسجدیں بنا لیں اور ان میں ان بزرگوں کی تصویریں بنا لیں تاکہ ان کا حال اور ان کی عبادت کا نقشہ سامنے رہے اور اپنے آپ کو ان جیسا بنانے کی کوشش کریں لیکن کچھ زمانے کے بعد ان تصویروں کے مجسمے بنا لیے۔ کچھ اور زمانے کے بعد انہی بتوں کی پوجا کرنے لگے اور ان کے نام انہی اولیاء اللہ کے ناموں پر رکھ لیے۔ ود، سواع، یغوث، یعوق، نسر وغیرہ۔ جب بت پرستی کا رواج ہو گیا، اللہ نے اپنے رسول نوح علیہ السلام کو بھیجا۔ آپ نے انہیں اللہ واحد کی عبادت کی تلقین کی اور کہا کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں۔ مجھے تو ڈر ہے کہ کہیں قیامت کے دن تمہیں عذاب نہ ہو۔ قوم نوح کے بڑوں نے، ان کے سرداروں نے اور ان کے چودھریوں نے نوح علیہ السلام کو جواب دیا کہ تم تو بہک گئے ہو، ہمیں اپنے باپ دادوں کے دین سے ہٹا رہے ہو۔ ہر بد شخص نیک لوگوں کو گمراہ سمجھا کرتا ہے۔ قرآن میں ہے کہ جب یہ بدکار ان نیک کاروں کو دیکھتے ہیں، کہتے ہیں کہ یہ تو بہکے ہوئے ہیں۔ کہا کرتے تھے کہ اگر یہ دین اچھا ہوتا تو ان سے پہلے ہم نہ مان لیتے؟ یہ تو بات ہی غلط اور جھوٹ ہے۔
نوح علیہ السلام نے جواب دیا کہ میں بہکا ہوا نہیں ہوں بلکہ میں اللہ کا رسول ہوں، تمہیں پیغام رب پہنچا رہا ہوں۔ تمہارا خیرخواہ ہوں اور اللہ کی وہ باتیں جانتا ہوں جنہیں تم نہیں جانتے۔
ہر رسول مبلغ، فصیح، بلیغ، ناصح، خیرخواہ اور عالم باللہ ہوتا ہے۔ ان صفات میں اور کوئی ان کی ہمسری اور برابری نہیں کر سکتا۔ صحیح مسلم شریف میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عرفے کے دن اپنے اصحاب سے فرمایا جبکہ وہ بہت بڑی تعداد میں بہت زیادہ تھے کہ اے لوگو! میری بابت اللہ کے ہاں پوچھے جاؤ گے تو بتاؤ کیا جواب دو گے؟ سب نے کہا: ہم کہیں گے کہ آپ نے تبلیغ کر دی تھی اور حق رسالت ادا کر دیا تھا اور پوری خیر خواہی کی تھی۔ پس آپ نے اپنی انگلی آسمان کی طرف اٹھائی اور پھر نیچے زمین کی طرف اشارہ کیا اور فرمایا یااللہ! تو گواہ رہ، اے اللہ! تو شاہد رہ، یااللہ! تو گواہ رہ۔ [صحیح مسلم:1218]
0%