وقيل يا ارض ابلعي ماءك ويا سماء اقلعي وغيض الماء وقضي الامر واستوت على الجودي وقيل بعدا للقوم الظالمين ٤٤
وَقِيلَ يَـٰٓأَرْضُ ٱبْلَعِى مَآءَكِ وَيَـٰسَمَآءُ أَقْلِعِى وَغِيضَ ٱلْمَآءُ وَقُضِىَ ٱلْأَمْرُ وَٱسْتَوَتْ عَلَى ٱلْجُودِىِّ ۖ وَقِيلَ بُعْدًۭا لِّلْقَوْمِ ٱلظَّـٰلِمِينَ ٤٤
وَقِیْلَ
یٰۤاَرْضُ
ابْلَعِیْ
مَآءَكِ
وَیٰسَمَآءُ
اَقْلِعِیْ
وَغِیْضَ
الْمَآءُ
وَقُضِیَ
الْاَمْرُ
وَاسْتَوَتْ
عَلَی
الْجُوْدِیِّ
وَقِیْلَ
بُعْدًا
لِّلْقَوْمِ
الظّٰلِمِیْنَ
۟
3

اب خطاب زمین و اسمان سے ہے۔ گویا وہ سمجھتے ہیں۔ دونوں تعمیل کرتے ہیں۔ زمین نے پانی کو چوسنا اور نگلنا شروع کردیا اور آسمان نے برسانا چھوڑ دیا۔ پانی زمین کے پیٹ میں چلا گیا اور سطح زمین معمول پر آگئی۔ اللہ نے جو کرنا تھا وہ انجام کو پہنچا اور یہ کشتی جودی پہاڑ پر آ کر رک گئی۔ " اور یہ کہہ دیا گیا کہ دوری ہو ظالموں کی قوم کے لیے " یہ ایک مختصر سا جملہ ہے لیکن نہایت ہی دو ٹوک اور فیصلہ کن انجام کا اظہار کرتا ہے۔ جس کے اندر بہت بڑی گہرائی ہے اور یہ اسلوب اظہار " کہہ دیا گیا " کہنے والے کا نام نہ لیا گیا۔ مطلب یہ کہ اس باب کو اب بند کردیا گیا ہے اور بُعْدًا لِّلْقَوْمِ یعنی اب یہ نیست و نابود ہوگئے ، زندگی سے دور ہوگئے ، اللہ کی رحمت سے بہت دور جا پڑے اور اب وہ عوام کی یاد سے دور ہوگئے اور اقوام کی تاریخ سے ان کو حذف کردیا گیا۔