Unasoma tafsir kwa kundi la aya 70:19 hadi 70:21
۞ ان الانسان خلق هلوعا ١٩ اذا مسه الشر جزوعا ٢٠ واذا مسه الخير منوعا ٢١
۞ إِنَّ ٱلْإِنسَـٰنَ خُلِقَ هَلُوعًا ١٩ إِذَا مَسَّهُ ٱلشَّرُّ جَزُوعًۭا ٢٠ وَإِذَا مَسَّهُ ٱلْخَيْرُ مَنُوعًا ٢١
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
3

” اس “ انسان کی تصویر ذرا دیکھئے ، یہ ایمان سے محروم انسان ہے۔ قرآن کریم اس کی کس قدر سچی تصویر کھینچتا ہے۔ اور اس تصویر میں ایک غیر مومن انسان کے خدوخال اور فیچرز کس قدر نمایاں ہیں۔ ان تمام خدوخال سے انسان تب ہی محفوظ ہوتا ہے ، جب وہ مومن ہوتا ہی۔ ایک مومن پر اگر کوئی مصیبت آجائے تو وہ صبر جمیل کا پیکر ہوتا ہے اور مطمئن ہوتا ہے۔ جزع وفزع سے دور ، اور اگر اسے خوشحالی نصیب ہو تو وہ نہ بخل کرتا ہے نہ اتراتا ہے۔

ان الانسان .................... منوعا (12) (07 : 91 تا 12) ”” انسان تھرڈلاپیدا کیا گیا ہے ، جب اس پر مصیبت آتی ہے تو گھبرا اٹھتا ہے اور جب اسے خوشحالی نصیب ہوتی ہے تو بخل کرنے لگتا ہے “۔ یوں نظر آتا ہے کہ ایک ایک لفظ مصور قدرت کا ایک رنگ ہے اور وہ انسان کے چہرے اور اس کی خصوصیات کو صاف بتارہا ہے۔ یہاں تک کہ جب انسان یہ نہایت ہی مختصر سی تین آیات پڑھتا ہے اور دیکھتا ہے کہ ان میں چند ہی کلمات استعمال ہوئے ہیں ، تو اسے ایمان سے خالی انسان کی ایک نہایت چمکدار اور واضح تصویر نظر آتی ہے۔ اس کے تمام فیچرز نمایاں ہیں۔ ھلوع ، جزوع اور منوع اس انسان کو اگر کوئی مصیبت پیش آجائے یا حقائق حیات کا کوئی ڈنگ لگ جائے تو یہ آہ وفغاں کرنے لگتا ہے۔ یہ سمجھتا ہے کہ بس وہ اب اسی حالت میں رہے گا۔ وہ سمجھتا ہے کہ اب تو وہ ہمیشہ کے لئے اس مصیبت میں پھنس گیا ہے ، اور کوئی نہیں ہے جو اس کو اس مصیبت سے نکال دے۔ وہ یہ سمجھنے لگتا ہے کہ گویا مصیبت کی یہ گھڑی دائمی ہے۔ اس وقت یہ شخص اوہام میں بندھ جاتا ہے اور مصیبت اور مشقت بڑھ جاتی ہے۔ اس کے تصور میں بھی یہ بات نہیں ہوتی کہ اس مشکل کے بعد کوئی آسانی بھی آسکتی ہے۔ وہ اللہ سے کسی قسم کی رحمت اور مہربانی کا مامیدوار نہیں ہوتا۔ چناچہ یہ جزع فزع اس کو کھا جاتی ہے۔ اس کی شخصیت ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوجاتی ہے۔ اور اس صورت کی اصل وجہ یہ ہوتی ہے کہ وہ ایک قوی ذات کی پناہ میں نہیں ہوتا۔ اس کا کوئی مضبوط سہارا نہیں ہوتا ، جس سے اس کو کوئی امید ہے۔ اور اس کے برعکس اگر وہ خوشحال ہو ، عافیت میں ہو ، تو وہ نیکی کا کوئی کام کرنے سے رکنے والا ہوتا ہے۔ وہ سمجھتا ہے کہ یہ سہولیات اس کو اس کی محنت اور مشقت کی وجہ سے حاصل ہیں ، اس لئے یہ ان کو اپنے لئے مخصوص کرلیتا ہے ، اپنی ذات کے لئے چھپا لیتا ہے اور بلکہ یہ اپنی مملوکات کا غلام ہوجاتا ہے۔ اور اپنی جائیداد اور مال پر مرمٹنے کے لئے تیار ہوتا ہے۔ یہ اس لئے کہ اسے معلوم نہیں ہے کہ رزق کی حقیقت کیا ہے اور یہ کہ رزق کے ملنے میں خود انسان کا کردار کیا ہے۔ یہ شخص یہ امید نہیں رکھتا کہ اگر ہے ، دونوں حالتوں میں تھرڈلا ہے۔ حالت خیر میں بھی اور حالت شر میں بھی۔ یہ ایک انسان کی بہت ہی بری تصویر ہے۔ لیکن اس انسان کی جس کا دل نور ایمانی سے خالی ہو۔

لہٰذا اللہ پر ایمان لانا دراصل بڑا اہم مسئلہ ہے۔ یہ محض ایک لفظ نہیں ہے جو زبان سے ادا کردیا جائے۔ اور نہ ہی یہ چند مذہبی رسومات عبادات سے متعلق ہے۔

یہ دراصل ایک نفسیاتی حالت ہے اور یہ ایک مکمل نظام حیات ہے اور حالات وواقعات کے لئے یہ ایک معیار ہے۔ اور انسان کا دل اگر ایمان سے خالی ہوجائے تو وہ اس قدر ہلکا ہوجاتا ہے جس طرح پرندوں کا ایک پر جسے ہوا کے جھونکے ادھر سے ادھر اور ادھر سے ادھر اڑا کر گھماتے ہیں اس کا کوئی وزن اور پیمانہ نہیں ہوتا۔ اس قسم کا انسان ہمیشہ قلق اور خوف کا شکار رہتا ہے۔ اگ را سے کسی مصیبت سے دو چار ہونا پڑے تو وہ جزع فزع کرتا ہے۔ اگر اسے کوئی بھلائی نصیب ہو تو بخیل ہوتا ہے۔ لیکن اگر اس کا ظرف ایمان سے بھر اہوا ہو ، تو وہ نہایت اطمینان ، عافیت میں ہوتا ہے ، اس لئے کہ اس کا ربط ایک حقیقی سرچشمے سے ہوتا ہے۔ جہاں سے تمام واقعات و حالات کنٹرول ہوتے ہیں۔ وہ اللہ کی تقدیر پر مطمئن ہوتا ہے ، چاہے خیر ہو یا شر ہو۔ اگر خیر ہو تو وہ مطمئن ہوتا ہے۔ اللہ کی رحمت کا شعور رکھتا ہے۔ اللہ کی آزمائشوں میں وہ ہمیشہ شمع امید روشن رکھتا ہے۔ کہ مشکل کے بعد آسانی آتی ہے۔ وہ امید رکھتا ہے کہ ہر مشکل کے بعد آسانی آتی ہے۔ اسے اگر خیر ملتی ہے تو اسے معلوم ہوتا ہے کہ اس کے کچھ فرائض ہیں۔ اس کے لئے خرچ کرتا ہے اور اسے اس کی جزاء آخرت میں ملے گی۔ بلکہ دنیا وآخرت دونوں میں اسے جزاء ملے گی۔ لہٰذا ایمان دنیا میں ایک ایسی کمائی ہے جس کی جزاء آخرت میں ملے گی اور اس کی وجہ سے انسان کو راحت ، اطمینان اور ثبات وقرار ملتا ہے۔ اور پوری زندگی میں وہ ایسا ہی ہوتا ہے۔ اہل ایمان کو اس صورت حال سے مستثنیٰ کیا گیا ہے۔