اس پر جو تبصرہ قرآن کرتا ہے وہ اس اثر کو مزید گہرا کردیتا ہے۔ وہ سوچتا ہے کہ زمین اس جسم کو آہستہ آہستہ کھاتی ہے۔
قد علمنا ما۔۔۔۔۔ کتب حفیظ (50 : 4) ” ( حالانکہ ) زمین ان کے جسم میں سے جو چکھ کھاتی ہے وہ سب ہمارے علم میں ہے اور ہمارے پاس ایک کتاب ہے جس میں سب کچھ محفوظ ہے “۔
انداز تعبیر ایسا اختیار کیا گیا ہے کہ زمین کو زندہ اور متحرک کردیا گیا ہے اور وہ ان اجسام کو کھا رہی ہے جو اس کے منہ میں آہستہ آہستہ غائب ہو رہے ہیں۔ اور یہ زمین ان اجسام کو کھا رہی ہے ، نہایت آہستگی کے ساتھ۔ اور پھر ان کے اجسام کو یوں دکھایا گیا ہے کہ وہ تسلسل کے ساتھ کھائے جا رہے ہیں۔ زمین ان کے جسم کے جس حصے کو کھاتی ہے ، اسے اللہ جانتا ہے اور وہ لکھا جا رہا ہے کہ وہ حصہ کہا ہے۔ اس لئے ان کے جسم کے ذرے ، مرنے کے بعد کہیں گم نہیں ہوجاتے۔ رہی یہ بات کہ اس مٹی میں روح کس طرح ڈال دی جائے گی تو یہ بات تو ایک بار ہوچکی ہے ۔ اور ان کے اردگرد جو لاتعداد زندہ اشیاء پیدا کی جا رہی ہیں اور جن کی کوئی انتہا نہیں ہے ان کو تو وہ دیکھ رہے ہیں۔
یوں دلوں کو اس قدر تیز احساس دلایا جاتا ہے یہاں تک کہ یہ دل پگھل جاتے ہیں اور نرم ہوجاتے ہیں اور ان کے اندر احساس کو اس قدر تیز احساس دلایا جاتا ہے یہاں تک کہ یہ دل پگھل جاتے ہیں اور نرم ہوجاتے ہیں اور ان کے اندر احساس کو اس قدر تیز کردیا جاتا ہے کہ وہ بات کو جلدی مانتے ہیں۔ یہ بطور تمہید اصل مقصود بالذات بات کہنے سے پہلے کیا جاتا ہے۔