فلا تهنوا وتدعوا الى السلم وانتم الاعلون والله معكم ولن يتركم اعمالكم ٣٥
فَلَا تَهِنُوا۟ وَتَدْعُوٓا۟ إِلَى ٱلسَّلْمِ وَأَنتُمُ ٱلْأَعْلَوْنَ وَٱللَّهُ مَعَكُمْ وَلَن يَتِرَكُمْ أَعْمَـٰلَكُمْ ٣٥
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
3

اس قسم کی آیات جس طرح کافروں اور منافقین کو خطاب کر رہی ہیں۔ اس طرح خود مسلمانوں کو بھی دعوت دے رہی ہیں۔ یہ آیات کا فروں کو متنبہ کرتی ہیں کہ کوتاہیوں کا تدارک کرو ، توبہ کرو قبل اس کے کہ سکرات شروع ہوجائیں اور مسلمانوں کو ان آیات کا خطاب یوں ہے۔ کہ تم ان اسباب اور ان راہوں سے دور رہو جو تمہیں اس انجام تک پہنچا سکتی ہیں۔ اس آیت میں مسلمانوں اور کافروں دونوں کو خطاب یوں ہے کہ اگلی آیت میں دعوت اور جہاد میں سستی کو اس آیت پر مرتب کیا گیا ہے کہ اس انجام سے بچو اور سستی نہ کرو۔

فلا تھنوا وتدعوا ۔۔۔۔۔۔ اعمالکم (47 : 35) “ پس تم بودے نہ بنو اور صلح کی درخواست نہ کرو۔ تم ہی غالب رہنے والے ہو۔ اللہ تمہارے ساتھ ہے اور تمہارے اعمال کو وہ ہرگز ضائع نہ کرے گا ”۔

یہ ہے وہ بات جس سے مسلمانوں کو ڈرایا جا رہا ہے ۔ ان کے سامنے ان کافروں کا انجام رکھا جاتا ہے۔ جو رسول اللہ ﷺ سے جھگڑتے تھے تا کہ مسلمان اس کے تصور سے بھی ڈریں ۔ اس ڈراوے سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ اس وقت مسلمانوں میں ایسے لوگ موجود تھے جو جہاد کی مسلسل مشقتوں کو ایک بھاری حکم سمجھتے تھے۔ اور ان کے عزم میں کمزوری تھی۔ اور یہ لوگ امن و عافیت چاہتے تھے تا کہ جنگ کی مشقتوں سے آرام میں رہیں۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ان لوگوں میں سے بعض کی مشرکین کے ساتھ رشتہ داریاں بھی ہوں یا ان کے ساتھ مالی معاملات میں شراکت ہو ، اس زاویہ سے یہ لوگ امن اور صلح کو پسند کرتے ہوں کیونکہ انسان ہمیشہ انسان رہا ہے اور قرآن کریم ان بشری اور فطری کمزوریوں کا علاج اپنے انداز سے کر رہا ہے۔ اور قرآن مجید نے اس طرح جو تربیت جاری رکھی تو اس کے نتیجے میں دور اول میں ایک معجزانہ گروہ تیا رہو گیا۔ لیکن اس مساعی اور کامیابیوں کے باوجود اس بات کی نفی نہیں کی جاسکتی کہ جماعت مسلمہ کی صفوں میں کمزور لوگ ہوں۔ خصوصاً ایسے ابتدائی مدنی دور میں چناچہ اس آیت میں بعض ایسی ہی کمزوریوں کی طرف اشارہ کیا گیا ہے ۔ ذرا ملاحظہ فرمائیں کہ قرآن کریم کس طرح لوگوں کو لیتا تھا۔ ہمیں بھی چاہئے کہ قرآنی انداز کے مطابق دور جدید کے لوگوں کی تربیت کریں۔

فلا تھنوا وتدعوا ۔۔۔۔۔۔ اعمالکم (47 : 35) “ پس تم بودے نہ بنو اور صلح کی درخواست نہ کرو۔ تم ہی غالب رہنے والے ہو۔ اللہ تمہارے ساتھ ہے اور تمہارے اعمال کو وہ ہرگز ضائع نہ کرے گا ”۔

تم چونکہ غالب ہو اس لیے صلح کی درخواست نہ کرو ، تم اعتقاد اور تصور حیات کے اعتبار سے بلند ہو ، تم خدا سے تعلق کے زاویہ سے بھی بلند ہو ، تمہارا آقا بلند ہے ، نظام زندگی ، مقاصد زندگی اور مقصود زندگی کے اعتبار سے بھی تم بلند ہو ، شعور ، اخلاق اور طرز عمل کے اعتبار سے تم بلند ہو۔ قوت ، مرتبے اور ذریعہ نصرت سے اعتبار سے بھی تم بلند ہو۔ تمہاری پشت پر بہت بڑی قوت ہے واللہ معکم۔ تمہارے ساتھ تو اللہ ہے۔ تم اکیلے تو نہیں ہو ، تم ایک نہایت ہی بلند اور جبار اللہ تعالیٰ کے زیر تربیت ہو جو قادر مطلق ہے۔ وہ تمہارا مددگار ہے اور ہر وقت حاضر و ناظر ہے اور تمہارے ساتھ ہے۔ وہ تمہاری مدافعت کرتا ہے تمہارے اعداء کی حیثیت کیا ہے ، جب کہ تمہارے ساتھ اللہ ہے۔ تم جو کچھ خرچ کرتے ہو ، اور جو کچھ کرتے ہو اور تمہیں جو مشقتین پہنچتی ہیں۔ ان کا حساب رکھا جا رہا ہے۔ ان میں سے کوئی ایک چیز بھی ضائع نہیں ہوتی۔

ولکن یترکم اعمالکم (47 : 35) “ اور تمہارے اعمال کو ہو ہرگز ضائع نہ کرے گا ” ۔ اللہ تمہارے اعمال میں کوئی کٹوتی نہ کرے گا کہ اس سے تمہیں کوئی فائدہ نہ ہو اور اس کا معاوضہ تمہیں نہ ملے۔

نیز کمزوری دکھانے اور صلح چاہنے کا کوئی جواز نہیں ہے۔ اس لیے کہ اللہ نے فیصلہ کردیا ہے کہ تم اعلیٰ ہو ، وہ تمہارے ساتھ ہے اور تمہارے اعمال کا ایک ذرہ بھی ضائع نہ ہوگا لہٰذا تم مکرم ، ماجور اور منصور ہو۔