undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
3

بسم اللہ الرحمن الرحیم کے ساتھ آغاز کرنے کے بعد ‘ اب انسان اپنے اللہ کی طرف متوجہ ہوتا ہے ۔ اس کی تعریف کرتا ہے اور پوری کائنات کے لئے اس کی عالمگیر ربوبیت کا اعلان کرتا ہے ۔ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ تعریف اللہ ہی کے لئے ہے جو تمام کائنات کا رب ہے “۔ اللہ کی تعریف وہ شعور ہے جو اللہ تعالیٰ کا ذکر ہوتے ہی قلب مومن میں موجزن ہوتا ہے اور مومن کا دل اس سے سرشار ہوجاتا ہے کیونکہ وجود انسانی اپنے آغاز ہی میں بےپایاں نعمتوں اور فیوض میں سے ایک فیض ہے ‘ جو قلب مومن میں اللہ کی حمد وثناکے جذبات کے مہمیز کا کام کرتا ہے۔

اللہ کی نعمتیں قدم قدم پر ‘ لمحہ لمحہ ‘ مسلسل اور جوق درجوق آتی ہیں اور اللہ کی تمام مخلوقات اور بالخصوص اس ” انسان “ کو فیض یاب کررہی ہے۔ لہٰذا اللہ کی حمد سے ہر کام کا آغاز اور اسی کی تعریف وثنا پر ہر کام کا انجام اسلامی تصور حیات کے اصولوں میں سے ایک اہم اصول ہے وَ ھُوَ اللہ ُ لَآ اِٰلہَ اِلَّا ھُوَ لَہُ الحَمدُ فِی الاُولٰی وَ الاٰخِرَةِ ’ وہی اللہ جس کے سوا کوئی عبادت کے مستحق نہیں اس کے لئے حمد ہے ۔ اول میں بھی اور آخر میں بھی ۔ “ ایسے بندے پر ذرا اللہ کے فضل وکرم کو تو دیکھئے ! جب وہ اپنی زبان سے ” الحمدﷲ“ ادا کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے نامہ اعمال میں وہ بھلائی لکھ دیتا ہے جو سب نیکیوں پر بھاری ہوتی ہے ۔ ابن ماجہ میں حضرت ابن عمر ؓ کی روایت کردہ ایک حدیث میں آتا ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا ” کسی بندے نے اللہ کی تعریف کرتے ہوئے کہا یَارَبِّ لَکَ الحَمدُ کَمَا یَنبَغِی لِجَلَالِ وَجھِکَ وَعَظِیمِ سُلطَانِکَ ” اے اللہ تیرے لئے ایسی حمد ہے جو تیرے چہرے کی بزرگی اور تیری سلطنت کی عظمت کے لائق ہو۔ “

” فرشتے اس معاملے میں متحیر ہوئے اور فیصلہ نہ کرسکے کہ اسے کس طرح لکھیں چناچہ وہ اللہ کی بارگاہ میں حاضر ہوئے اور عرض کی ” یا خدایا ! تیرے بندے نے ایک ایسی بات کہی ہے کہ ہماری سمجھ میں نہیں آتا کہ اسے کس طرح لکھیں ۔ “ یہ جانتے ہوئے بھی کہ بندے نے کیا کہا تھا ‘ اللہ تعالیٰ نے فرشتوں سے سوال کیا ” تو میرے بندے نے کیا کہا ؟ “ فرشتوں نے عرض کی ‘ اس نے کہا ” اے اللہ تیرے لئے ایسی تعریف ہے جو تیرے چہرے کی عظمت و جلال اور تیری سلطنت کی عظمت کے لائق ہے۔ “ تو اللہ تعالیٰ نے انہیں حکم دیا کہ اسی طرح لکھو کہ جس طرح میرے بندے نے کہا ۔ قیامت کے دن وہ مجھ سے ملے گا اور میں خود اس کی جزا دوں گا۔ “

غرض اللہ کی تعریف کے ساتھ اس کی طرف متوجہ ہونا ایک مومن کا وہ شعور ہے جو اللہ کا نام زبان پر آتے ہی ‘ قلب مومن میں موجزن ہوتا ہے ۔ اس آیت کا دوسرا حصہ رب العالمین بھی لفظ اسلامی تصور حیات کا ایک بنیادی اصول ہے ۔ اللہ کی عالمگیر اور مطلق ربوبیت اسلامی عقائد کا اصل الاصول ہے ۔ رب اس ذات کو کہتے ہیں جو مالک اور متصرف ہو اور عربی لغت میں یہ لفظ اس سربراہ کے لئے بھی استعمال ہوتا ہے جو اصلاح وتربیت کی خاطر کسی چیز میں تصرف کرتا ہے ۔ اصلاح تربیت کے لئے تصرف اور ربوبیت تمام جہانوں اور تمام مخلوقات کو شامل ہے ‘ اللہ نے مخلوقات کو اس لئے پیدا نہیں کیا کہ اسے یونہی مسلسل چھوڑدیا جائے ‘ بلکہ اللہ ہی اس کائنات میں متصرف اور اس کا مصلح ہے ‘ وہ اس کی نگرانی کرتا ہے اور اسے مسلسل پال رہا ہے ‘ تمام جہانوں اور تمام مخلوقات کی دیکھ بھال رب العالمین کی نگرانی میں کی جارہی ہے ‘ خالق اور مخلوق کے درمیان ربط وصلہ ہر لمحہ اور ہر حال میں قائم ہے اور ہر وقت رواں دواں ہے۔

اس مکمل اور ہمہ گیر عقیدہ توحید کی تشریح و توضیح اور اس ژولیدہ فکری کے درمیان قطعی امتیاز کرکے رکھ دیتی ہے ۔ بسا اوقات ایسا بھی ہوتا ہے اور اب بھی ہورہا ہے کہ لوگ خدائے واحد اور صانع کائنات کا اعتراف بھی کرتے ہیں ۔ لیکن اس کے باوجود وہ متعدد الٰہوں اور ارباب کے بھی قائل ہیں اور وہ ان الٰہوں اور ارباب کو اپنی زندگی میں حاکم تسلیم کرتے ہیں ۔ اگرچہ بادی النظر ہی میں یہ عقیدہ نہایت ہی مضحکہ خیز معلوم ہوتا ہے لیکن حقیقت واقعہ یہی ہے کہ بعض لوگوں کا یہ عقیدہ تھا اور اب بھی ہے۔ قرآن کریم نے ‘ بعض مشرکین کا یہ عقیدہ بیان کیا ہے ۔ جو وہ اپنے الٰہوں اور ارباب کے بارے میں رکھتے تھے۔

مَا نَعبُدُہُم اِلَّا لِیُقَرِّبُونَآ اِلَی اللہ ِ زُلفٰی (زمر : 3) ” ہم تو ان کی عبادت اس لئے کرتے ہیں کہ وہ اللہ تک ہماری رسائی کرادیں “۔ جیسا کہ اہل کتاب کے بارے میں کہا گیا ۔ اِتَّخَذُوآ اَحبَارَھُم وَ رُہبَانَہُم اَربَابًا مِّن دُونِ اللہ ِ (توبة : 13) ” انہوں نے اپنے علماء اور درویشوں کو اللہ کے سوا اپنا رب بنالیا ہے ۔ “ نزول قرآن کے وقت مشرکین عرب کی حالت یہ تھی کہ وہ بڑے الٰہوں کے ساتھ چھوٹے چھوٹے ارباب کے بھی قائل تھے ‘ اور یہ چھوٹے ارباب ان کے خیالات کے مطابق وہ تھے جو بڑے خداؤں کے ساتھ ساتھ خدائی کا کام کررہے تھے ۔

غرض اس صورت میں عالمگیر ربوبیت کا بیان کرنا اور اسے تمام جہانوں کے لئے عام و شامل کرنے سے غرض یہ ہے کہ جاہلیت کے فکری انتشار اور اسلام کی نظریاتی ہم آہنگی کے درمیان واضح طور پر خط فاضل کھینچ دیا جائے تاکہ یہ پوری کائنات اور تمام لوگ صرف ایک اللہ کی طرف متوجہ ہوں اور اس کی حاکمیت مطلقہ (Boundless Sovereignty) کا اقرار کریں اور اپنی گردنوں سے ارباب متفرقوں کی غلامی کا جو اتار پھینکیں اور بیشمار خداؤں کو ماننے سے وہ جس فکری انتشار و پریشانی میں مبتلا ہوتے رہتے ہیں اس سے نجات پائیں ۔ اور اس طرح اللہ کی مخلوق کا ضمیر اللہ تعالیٰ کی دائمی نگرانی اور قائم ربوبیت کے سائے میں مطمئن ہوجائے ‘ وہ ربوبیت جو کسی وقت بھی منقطع نہیں ہوتی ‘ جس کا سلسلہ ابد الآباد تک قائم دائم اور جاری وساری ہے ۔ یاد رہے یہ کوئی ایسی ربوبیت نہیں جس کا تصور ارسطو نے پیش کیا کہ اللہ نے اس کائنات کی تخلیق کی اور پھر اسے یونہی چھوڑدیا ۔ وہ کہتا ہے کہ اللہ کو کیا پڑی ہے کہ وہ اپنے سے فرو تر چیزوں کے بارے میں فکر کرے ‘ وہ صرف اپنی ذات کے بارے میں فکر کرتا ہے ۔ “ یہ خیال اس شخص کا ہے جو ایک عظیم فلسفی سمجھا جاتا ہے ‘ اس کا فلسفہ ایک ٹھوس مانا جاتا ہے اور اس کی عقل کو عقل رسا اور اسے عبقری تسلیم کیا جاتا ہے۔

جب اسلامی تعلیمات کا آغاز ہوا تو اس دنیا میں عقائد و تصورات ‘ افکار وتوہمات اور فلسفوں اور روایات کا ایک عظیم ذخیرہ موجود تھا جس میں حق و باطل کا کوئی امتیاز نہ تھا ۔ کھرے اور کھوٹے میں کوئی جدائی نہ تھی ۔ خرافات دین کا جزو تھے ۔ فلسفے اور عقائد اوہام و خرافات کا پلندہ تھے ‘ اور انسانی ضمیر ان اوہام وروایات کے تہہ بہ تہہ ذخیرے کے نیچے دب گیا تھا اور یقین سے محروم وہم و گمان کے ان گھٹا ٹوپ اندھیروں میں ٹامک ٹوئیاں ماررہا تھا ۔

یہ حیرانی و پریشانی کیا تھی ‘ جس میں اسے نہ سکون ملتا اور نہ نور ہدایت کی کرن نظر آتی ؟ یہ فقط اس وقت کا تصور الٰہ تھا ۔ الٰہ العالمین اس کی صفات ‘ مخلوق سے اس کا تعلق ایسے مسائل ‘ بالخصوص اللہ تعالیٰ اور انسان کے باہم تعلق کی صحیح نوعیت ‘ اس وقت کے تمام عقائد اس ضلالت اور گمراہی کا شکار تھے ۔

اور اس سے قبل کے انسان اپنے اللہ اور اس کی صفات کے بارے میں کوئی تصور قائم کرتا اور اس وقت کی موجود سرگرمی ‘ سرگردانی اور اوہام و تخیلات کے بھاری بھرکم ذخیرے سے نجات پاتا ‘ انسان کے لئے یہ ممکن ہی نہ تھا کہ اس کا ضمیر اس کائنات کے بارے میں یا خود اپنے نفس کے بارے میں اور اپنے لئے کسی نظام زندگی کے بارے میں مطمئن ہوجائے اور اسے قرار و سکون حاصل ہوسکے (لہٰذا سب سے پہلے تصور الٰہ کی درستگی اور ان باطل نظریات سے نجات ضروری تھی)

اس سکون اور تطہیر عقائد کی ضرورت اور اہمیت کا احساس ‘ انسان کو اس وقت تک نہیں ہوسکتا جب تک وہ اس فکری ضلالت کے طول وعرض سے خوب واقفیت نہ رکھتا ہو ‘ اور اسے اس بارے میں پوراعلم نہ ہو کہ جب اسلام آیا تو انسان کے دل و دماغ پر غلط عقائد و تصورات ‘ باطل فلسفوں اور غلط روایات کی کس قدر تہیں جمی ہوئی تھیں ۔ ہم نے یہاں تو ان کی طرف اجمالی اشارہ کیا ہے۔ تفصیلی بحث ان مقامات میں ہوگی جہاں قرآن کریم نے تفصیلاً ان تصورات سے بحث کی ہے ۔

ان وجوہات کی بناپر اسلام نے سب سے پہلے اسلامی عقائد اور اسلام کے اساسی تصورات سے تفصیلی بحث کی اور اللہ کی ذات وصفات ‘ مخلوقات سے اس کے تعلق اور مخلوق کے اپنے خالق کے ساتھ ربط کی نوعیت کے بارے میں اسلامی تصور کو قطعی اور یقینی طور پر واضح اور متعین کردیا ۔ یہی وجہ ہے کہ اسلامی تصور حیات کی بنیاد ‘ وہ کامل ‘ خالص اور ہمہ گیر توحید بنی جس میں شرک کا شائبہ تک نہ تھا۔ اسلامی تعلیمات میں مسلسل اس کی وضاحت کی گئی ہے ۔ اس کے بارے میں اٹھنے والے تمام شکوک و شبہات کا قلع قمع کیا گیا ۔ اس کے متعلق ہر قسم کے خلجان اور اجمال کو دور کیا گیا اور اسے پاک وصاف کرکے خالص اور واضح شکل میں دل مومن میں جاگزیں کیا گیا تاکہ وہ اس معاملے میں کسی طرح وہم و گمان کا شکار نہ ہو ‘ اسلام نے اللہ کی صفات اور صفت ربوبیت مطلقہ کے بارے میں بھی دوٹوک اور واضح تعلیمات دیں ۔ کیونکہ غلط فلسفوں اور بےاصل نظریات کا ایک بڑا حصہ انہی شرکیہ اوہام واساطیر پر مشتمل تھا جو اللہ کی صفات کے بارے میں ‘ ان غلط فلسفوں نے لوگوں کے دل و دماغ میں جاگزیں کردی تھیں اور انسانی ضمیر پر ان کا بڑا اثر تھا اور پھر انسانی طرزعمل پر بھی یہ تصورات اثر انداز ہورہے تھے ۔

جن لوگوں نے ان کوششوں کا سرسری مطالعہ کیا ہے جو اسلام نے اللہ کی ذات وصفات اور مخلوق کے ساتھ اس کے تعلق کی نوعیت کو لوگوں کے ذہن نشین کرنے کے لئے اور جن کے بیان میں قرآن کی لاتعداد آیات نازل ہوئیں اور اس نے ان باطل فلسفوں اور شرکیہ نظریات کا مطالعہ نہیں کیا جن کے بھاری بھرکم بوجھ تلے انسانی ضمیر دبا ہوا تھا ۔ اور پوری انسانیت ان نظریات میں گم گشتہ تھی ‘ تو وہ قرآن مجید کی ان کوششوں ‘ عقائد کے بارے میں بےحد تاکید و تکرار اور تفصیل و توضیح کی حقیقی وجہ کو ہرگز نہ پاسکے گا۔ لیکن اس کے برعکس جو شخص ان باطل نظریات و عقائد کا گہرا مطالعہ کرے گا جو نزول قرآن کے وقت رائج تھے ‘ اس پر ان کوششوں کی حقیقت واہمیت اور ضرورت اچھی طرح واضح ہوجائے گی ۔ وہ سمجھ سکے گا کہ عقیدہ توحید نے انسانی ضمیر کی آزادی میں کیا پارٹ ادا کیا ۔ کیونکہ اس سے انسان کو اوہام و اساطیر اور متعدد خداؤں کی دیومالائی تصورات سے نجات دی۔

غرض عقیدہ توحید کا حسن ‘ اس کا کمال ‘ اس کی ہم آہنگی اور جس حقیقت کا اس میں اظہار کیا گیا ہے ‘ اس کی سادگی اور واقعیت پسندی ‘ اس وقت تک سمجھ میں نہیں آسکتی جب تک انسان ان باطل تصورات و عقائد اور اساطیر وروایات کا اچھی طرح جائزہ نہ لے جو اس وقت دنیا میں رائج تھے ۔ بالخصوص ذات باری کی حقیقت ‘ اس دنیا کے ساتھ اس کے تعلق کی نوعیت وغیرہ ‘ غرض ان باطل افکار کے گہرے مطالعے کے بعد ہی یہ معلوم ہوسکتا ہے کہ اسلامی نظریہ حیات دراصل ایک نعمت ہے ۔ یہ قلب ونظر دونوں کے لئے رحمت ہے ‘ اس کا حسن اور سادگی انعام الٰہی ہے ‘ انسانی فطرت سے اس کی ہم آہنگی اور معقولیت ‘ ذہن انسانی سے قرب اور مانوسیت اور اس کا توازن اور اعتدال یہ سب کچھ اللہ کی رحمت خاص ہے جو اس نے اپنی مخلوق پر کی ۔

Maximize sua experiência no Quran.com!
Comece seu passeio agora:

0%