Je leest een tafsir voor de groep verzen 26:105tot 26:108
كذبت قوم نوح المرسلين ١٠٥ اذ قال لهم اخوهم نوح الا تتقون ١٠٦ اني لكم رسول امين ١٠٧ فاتقوا الله واطيعون ١٠٨
كَذَّبَتْ قَوْمُ نُوحٍ ٱلْمُرْسَلِينَ ١٠٥ إِذْ قَالَ لَهُمْ أَخُوهُمْ نُوحٌ أَلَا تَتَّقُونَ ١٠٦ إِنِّى لَكُمْ رَسُولٌ أَمِينٌۭ ١٠٧ فَٱتَّقُوا۟ ٱللَّهَ وَأَطِيعُونِ ١٠٨
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
3

درس نمبر 164 ایک نظر میں

جس طرح سابقہ قصے میں گردش ایام کو پ یچھے کی طرف دوڑایا گیا تھا اور روئے سخن قصہ مسویٰ سے پیھچے قصہ ابراہیم کی طرف چلا گیا تھا۔ یہاں بھی قصہ ابراہیم سے آپ مزید پیچھے قصہ نوح کی طرف ہم جا رہے ہیں۔ یہاں دراصل تاریخی ترتیب قصص ملحوظ نہیں ہے۔ مقصد شرکیہ عقائد کے خلاف جدوجہد کے چند نمونے دینے ہیں۔

قصہ نوح بھی قصہ موسیٰ اور قصہ ابراہیم کی طرح کئی سورتوں میں آیا ہے۔ یہ قصہ اس سے قبل سورة اعراف میں آیا ہے۔ سورة اعراف میں نزول آدم کے بعد اتخصار کے ساتھ آیا تھا جس میں آپ نے قوم کو توحید کی طرف بلایا تھا اور قیامت کے دن کے عذاب عظیم سے ڈرایا تھا اور یہ بتایا تھا کہ قوم نوح نے اپنا نوح (علیہ السلام) سے کہا کہ وہ گمراہ ہوگ ئے ہیں۔ ان کو تعجب ہوا کہ اللہ ان کے طرف ان جیسا انسان کس طرح بھیج سکتا ہے کہ وہ دوسرے انسانوں کو ہدایت دے۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ نے آپ کی قوم کو غقر کیا اور آپ کو اور آپ کے ساتھیوں کو نجات دی۔

یہ قصور سورة یونس میں بھی اختصار کے ساتھ پیش کیا گیا ہے ، یہ آپ کی راسلت کا آخری دور تھا ، جب آپ نے اپنی قوم کو چیلنج کیا۔ انہوں نے ان کی تکیذب کی۔ آپ اور آپ کے ساتھیوں کو کشتی کے ذریعے نجات ملی اور دور سے فریق کو غرق کردیا گیا۔

سورت ہود میں اس قصے کی تفصیلات دی گیء ہیں اس میں کشتی ، طوفان اور اپنے بیٹے کے بارے میں حضرت نوح کی دعا جو غرق ہوا اور پھر طوفان کے بعد کے واقعات اور وہ واقعات جو طوفان سے پہلے تبلیغ کے دوران ان کو پیش ائٓے۔

سورت المومنون میں بھی یہ قصہ آیا ہے۔ وہاں حضرت نوح اپنی قوم کو رب واحد کی بندگی کی دعوت دیتے ہیں جبکہ قوم یہ اعتراض کرتی ہے کہ تم تو ہم جیسے انسان ہو اور ہم پر فضیلت حاصل کرنے کے لئے یہ باتیں کرتے ہو۔ اگر اللہ کو کوئی نبی بھیجنا بھی تھا تو وہ فرشتے بھیج سکتا تھا انہوں نے آپ پر مجنوں ہونے کا الزام عائد کیا۔ وہاں پھر حضرت نوح رب کی طرف متوجہ ہوتے ہیں اور نصرت طلب کرتے ہیں اور وہاں پھر کشتی اور طوفان کی طرف ایک سرسری اشارہ ہوتا ہے۔

بالعموم قصہ نوح ، قصص عاد ، ثمود ، لوط اور الہ مدین کے قصے کے ساتھ آتا ہے۔ اس سورت میں بھی یہی صورت حال ہے۔ یہاں اس قصے میں جو بات کہی گئی ہے وہ یہ ہے کہ وہ قوم سے کہتے ہیں کہ خدا خوفی اختیار کرو ، یہ کہ وہ ان سے کسی اجر کے طلبگار نہیں ہیں اور یہ کہ ان کی قوم کے کبراء ان سے جو مطالبہ کرتے تھے کہ تمہارے پاس جو غریب اہل ایمان چپکے ہوئے ہیں ان کو دور کرو جس سے حضرت نوح انکار فرماتے تھے اور بعینہ یہی مطالبہ حضور اکرم سے بھی اہل مکہ کرتے تھے۔ اس کے بعد حضرت نوح دعا کرتے ہیں کہ اے اللہ ان کے اور ان کی قوم کے تنازعہ کا فصلہ حق کے ساتھ فرما دے۔ اللہ ان کے اس سوال کو پورا کرتا ہے اور مکذبین کو ہلاک کرتا ہے اور اہل ایمان کو بچا لیتا ہے۔

درس نمبر 164 تشریح آیات

105………تا …………122

کذبت قوم نوح المرسلین (105)

یہ تو قصے کا انجام بتا دیا ، قصے کا انجام پہلے لا کر پھر تفصیلات دی جاتی ہیں تاکہ قاری کو معلوم ہوجائے کہ روئے سخن کدھر ہے۔

سوال یہ ہے کہ قوم و نوح نے تو صرف نوح (علیہ السلام) کو جھٹلایا جبکہ قرآن کہتا ہے اس نے رسولوں کو جھٹلایا۔ رسالت اپنی حقیقت کے اعتبار سے دراصل ایک حقیقت ہے۔ تمام رسولوں کی دعوت یہی رہی ہے کہ اللو وحدہ لاشریک ہے اور صرف اسی کی بندگی کرنا چاہئے۔ جو شخص یا جو قوم ایک رسول کی تکذیب کرے وہ دراصل تمام رسولوں کی تکذیب کرتا ہے ۔ قرآن کریم اس مفہوم اور حقیقت کو مختلف مقامات پر دہراتا ہے۔ اور مختلف انداز اور اسالیب میں اس بات کو دہرایا جاتا ہے۔ اس لئے کہ یہ اسلامی نظریہ حیات کا ایک مسلمہ اصول ہے تمام رسولوں کی دعوت میں یہ اصول مسلم ہر ہے ہیں۔ اور اسی اصول پر انساینت کی تقسیم ہوتی رہی ہے۔ یعنی رسولوں کو ماننے والے ایک طرف اور نہ ماننے والے دورسی طرف تمام رسالتوں اور تمام زمانوں میں ایسا ہی ہوتا رہا ہے ۔ ایک مسلمان جب دیکھتا ہے تو ہر دین اور ہر عقیدے میں امت ایک ہی رہی ہے۔ ابتدائی تاریخ سے لے کر آج تک اور آخری دین توحید اسلام تک۔ ہر ملت اور ہر دین میں صنف مخلاف کافروں اور منکرین کی رہی ہے۔ اہل ایمان وہ ہیں جو رسولوں پر ایمان لاتے ہیں اور اہل کفر وہ ہیں جو انکار کرتے ہیں۔ اہل ایمان تمام رسولوں کا احترام کرتے ہیں اور ان پر ایمان لاتے ہیں کیونکہ منصب رسالت کی نوعیت اور حقیقت ایک ہے۔

ایک مسلم کے اندازے کے مطابق انسانیت کی تقسیم رنگوں ، علاقوں اور نسلوں کے مطابق نہیں کی جاسکتی۔ انسانیت کی تقسیم صرف اہل حق اور الہ باطل دو گروہوں کے درمیان ہوتی ہے اور آغاز انسانیت سے لے کر یہی تقسیم رہی ہے۔ لہٰذا اسلامی نقطہ نظر سے تاریخ کے لئے ایک ہی معیار اور ایک ہی رتازو ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ایک مسلم کی ذہنیت اور اس کی سوچ یہ ہوتی ہے کہ وہ رنگ و نسل اور قوم و وطن سے بالا ہو کر سوچتا ہے ۔ اس کے موجودہ روابط یا تاریخی روابط وہی ہوتے ہیں جو ایمانی اقدار پر مبنی ہوں۔ وہ ایمانی اقدار کیا صول پر سب کا محاسبہ کرتا ہے اور اپنی تمام اقدار اور افکار کو ایمان ہی کے معیار پر تولتا ہے

اذ قال لھم ……اطیعون (108)

۔ “

یہ تھی حضرت نوح کی قوم ، جس نے حضرت نوح (علیہ السلام) کی تکذیب کی۔ خود اپنی قوم نے ان کی تکذیب کی اور وہ خود ان کے بھائی تھے۔ حالانکہ اخوت کا تقاضا تو یہ تھا کہ یہ لوگ نوح کے ساتھ روا داری برتنے اور اطمینان سے ایمان لاتے اور تصدیق کرتے۔ لیکن ان کی قوم نے برادرانہ رواداری کا مظاہرہ بھی نہ کیا اور خود اپنے بھائی کی ہمدردانہ باتوں کا ان پر کوئی اثر نہ ہوا۔

الاتتقون (26 : 106) ” کیا تم ڈرتے نہیں وہ۔ “…… اور اس انجام سے نہیں ڈرتے ہو جو اس رویہ کا لازمی نتیجہ ہے جس پر تم ہو۔ اور تمہارے دل خوف اور خشیت محسوس نہیں کرتے۔ خدا خوفی کی طرف بلانا اسی سورت کا مخصوص مضمون ہے۔ یہی بات حضری موسیٰ نے فرعون سے کہی اور یہی بات نوح نے اپنی قوم سے کہی اور یہی بات ہر رسول نے اپنی اپنی قوم سے کہی۔

انی لکم رسول امین (26 : 108) ” میں تمہارے لئے ایک امانت دار رسول ہوں۔ “ جو نہ خیانت کرتا ہے نہ دھوکہ دیتا ہے اور نہ کوئی چیز چھپاتا ہے۔ نہ کوئی کمی کرتا ہے اور نہ بیشی اور مبالغہ کرت ا ہے۔ بس جو کچھ اللہ نے حکم دیا وہ پہنچاتا ہے۔

فاتقوا اللہ و اطیعون (26 : 108) ” لہٰذا تم اللہ سے ڈرو اور میری اطاعت کرو۔ “ یوں حضرت نوح (علیہ السلام) ان کو خد خوفی کی دعوت دیتے ہیں اور یہاں وہ ڈرنے کی نسبت اللہ کی طرف کرتے ہیں اور اس طرح ان کو اطاعت اور تسلیم پر آمادہ کرتے ہیں۔

پھر حضرت نوح دنیا کے مقاصد کی طرف سے ان کو اطمینان دلاتے ہیں۔ یہ کہ دعوت الی اللہ کیت حریک کے ساتھ ان کے کوء یمقاصد وابستہ نہیں ہیں۔ وہ ان سے کوئی اجر طلب نہیں کرتے کہ تم اللہ کی طرف رجوع کرو گے تو مجھے یہ انعام بھی دو گے۔ میرا اجر تو صرف اللہ پر ہے جس نے مجھے یہ دعوت دینے پر مامور کیا ہے۔ لوگوں سے یہ کہنا کہ میں تم سے کوئی دنیاوی اجر طلب نہیں کرتا ، یہ بات ہر نبی نے کی ہے اور معلوم یہ ہوتا ہے کہ ہر دور میں تحریک اسلامی کی دعوت دینے والوں کے لئے ضروری ہے کہ وہ تحریک کے ساتھ اپنے اغراض و مقاصد وابستہ نہ کریں کیونکہ ایک سچے داعی اور جھوٹے داعی میں فرق ہی یہ ہوتا ہے کہ ایک جھوٹا داعی مفادات کے لئے دعوت سے وابستہ ہوتا ہے۔ تمام انبیاء کے زمانے میں کاہن اور دوسرے مذہب راہنما لوگوں کے اموال باطل طریقے سے کھاتے تھے۔ ان کا کام ہی یہ ہوتا تھا کہ مختلف طریقوں اور حیلوں سے لوگوں کے مال بٹورنے کی کوشش کریں۔ اس کے مقابلے میں داعیان حق ہمیشہ مخلص ہوتے تھے۔ وہ اس ہدایت پر کوئی فیس طلب نہ کرتے تھے۔ وہ یہ کہتے تھے کہ ہمارا اجر اللہ رب العالمین پر ہے۔