Stai leggendo un tafsir per il gruppo di versi 47:13 a 47:14
وكاين من قرية هي اشد قوة من قريتك التي اخرجتك اهلكناهم فلا ناصر لهم ١٣ افمن كان على بينة من ربه كمن زين له سوء عمله واتبعوا اهواءهم ١٤
وَكَأَيِّن مِّن قَرْيَةٍ هِىَ أَشَدُّ قُوَّةًۭ مِّن قَرْيَتِكَ ٱلَّتِىٓ أَخْرَجَتْكَ أَهْلَكْنَـٰهُمْ فَلَا نَاصِرَ لَهُمْ ١٣ أَفَمَن كَانَ عَلَىٰ بَيِّنَةٍۢ مِّن رَّبِّهِۦ كَمَن زُيِّنَ لَهُۥ سُوٓءُ عَمَلِهِۦ وَٱتَّبَعُوٓا۟ أَهْوَآءَهُم ١٤
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
3

اب ایک موازنہ ان بستیوں کے درمیان جو ہلاک ہوئیں اور اس بستی کے درمیان جس نے رسول اللہ ﷺ کو نکال دیا۔

وکاین من قریۃ ۔۔۔۔۔۔۔ فلا ناصر لھم (47 : 13) “ اے نبی ﷺ ، کتنی ہی بستیاں ایسی گزر چکی ہیں جو تمہاری اس بستی سے بہت زیادہ زور آور تھیں جس نے تمہیں نکال دیا ہے۔ انہیں ہم نے اس طرح ہلاک کردیا کہ کوئی ان کا بچانے والا نہ تھا ”۔

یہ وہ آیت ہے جس کے بارے میں روایت ہے کہ یہ مکہ اور مدینہ کے درمیان اس وقت نازل ہوئی جب آپ ہجرت کا سفر فرما رہے تھے اس میں رسول اللہ ﷺ کو تسلی دی گئی ہے ۔ کیونکہ اپنا ملک ہمیشہ کے لئے چھوڑنا ایک مشکل کام ہے اور اس میں تسلی دی گئی کہ بظاہر تو یہ لوگ بڑے جبار نظر آتے ہیں ، دعوت اسلامی کی راہ روکے ہوئے ہیں ، اہل ایمان پر تشدد کرتے ہیں یہاں تک کہ انہوں نے ان کو اپنے گھروں سے نکل جانے پر مجبور کردیا ہے اور وہ دولت ایماں لے کر جا رہے ہیں لیکن دراصل یہ جبار بہت ہی کمزور ہیں۔

٭٭٭

اب دونوں فریقوں کے درمیان مزید موازنہ کیا جاتا ہے اور بتایا جاتا ہے اللہ کا یہ فیصلہ ہے کہ وہ مومنین کو جنتیں عطا کرے گا ، جہاں نہریں بہتی ہیں ، اس دنیا میں ان کو نصرت اور عزت بخشے گا ، اور کفار کا کوئی آقا نہیں ہے ، ان کا کوئی ناصر نہیں ہے وہ دنیا میں ہلاک ہوں گے اور آخرت میں خوار ہوں گے ، اور ہمیشہ جہنم میں ہوں گے۔ یہ کیوں ؟

افمن کان علی ۔۔۔۔۔ اھواء ھم (47 : 14) “ بھلا کہیں ایسا ہو سکتا ہے کہ جو اپنے رب کی طرف سے ایک صاف وصریح ہدایت پر ہو ، وہ ان لوگوں کی طرح ہوجائے جن کے لئے ان کا برا عمل خوشنما بنا دیا گیا ہے اور وہ اپنی خواہشات کے پیرو بن گئے ہیں ”۔

یہ ہے وہ فرق دونوں گروہوں کے درمیان ،۔۔۔۔ زندگی اور مقصد زندگی دونوں میں فرق ہے۔ جو اہل ایمان ہیں وہ :

علی بینۃ من ربہ (47 : 14) “ اپنے رب کی طرف سے صاف ہدایت پر ہیں ”۔ وہ حق کو جانتے ہیں اور انہوں نے اسے پہچان لیا ہے۔ وہ حق کے سرچشمے تک پہنچ گئے ہیں اور ان کے پاس جو حق آرہا ہے وہ اس پر جمے ہوئے ہیں۔ وہ کسی دھوکے میں ہیں اور نہ گمراہی میں۔ اور کفار ایک بڑے دھوکے میں پڑے ہیں۔ شیطان نے ان کو لیے ان کے برے اعمال خوشنما بنا دئیے ہیں۔ پھر ان کے اعمال کے بارے میں ان کو کوئی یقین بھی نہیں ہے کہ وہ کہاں سے ہدایات لیتے ہیں۔

واتبعوا اھواءھم (47 : 14) “ وہ اپنی خواہشات کے پیروکار ہیں ”۔ کوئی ضابطہ نہیں ہے۔ کوئی اصول نہیں ہے جس پر جائز و ناجائز کا تعین ہو ، اور کوئی روشنی ان کے پاس نہیں جس کے ذریعہ وہ حق و باطل کی تمیز کریں۔