۞ افلم يسيروا في الارض فينظروا كيف كان عاقبة الذين من قبلهم دمر الله عليهم وللكافرين امثالها ١٠
۞ أَفَلَمْ يَسِيرُوا۟ فِى ٱلْأَرْضِ فَيَنظُرُوا۟ كَيْفَ كَانَ عَـٰقِبَةُ ٱلَّذِينَ مِن قَبْلِهِمْ ۚ دَمَّرَ ٱللَّهُ عَلَيْهِمْ ۖ وَلِلْكَـٰفِرِينَ أَمْثَـٰلُهَا ١٠
اَفَلَمْ
یَسِیْرُوْا
فِی
الْاَرْضِ
فَیَنْظُرُوْا
كَیْفَ
كَانَ
عَاقِبَةُ
الَّذِیْنَ
مِنْ
قَبْلِهِمْ ؕ
دَمَّرَ
اللّٰهُ
عَلَیْهِمْ ؗ
وَلِلْكٰفِرِیْنَ
اَمْثَالُهَا
۟
3

اس کے بعد انہیں اس طرف متوجہ کیا جاتا ہے کہ ذرا پیچھے مڑکر تاریخ کو پڑھیں اور غور کریں۔ یہ بات ذرا شدت سے کہی جاتی ہے۔

افلم یسیروا فی الارض۔۔۔۔ امثالھا (47 : 10) “ کیا وہ زمین میں چلے پھرے نہ تھے کہ ان لوگوں کا انجام دیکھتے جو ان سے پہلے گزر چکے ہیں ؟ اللہ نے ان کا سب کچھ ان پر الٹ دیا ، اور ایسے نتائض ان کافروں کے لئے مقدر ہیں ”۔

یہ ایک خوفناک اور خشمگیں نظر ہے۔ اس میں نہات ہی ہیجان اور شروفضاں ہے۔ ان لوگوں کا منظر جن کو چشم زدن میں نیست و نابود کر کے رکھ دیا گیا۔ ان کے تمام آثار مٹا دئیے گئے۔ ملبے کے ڈھیر لگا دئیے گئے ہیں اور وہ ملبے کے ان ڈھیروں کے نیچے کراہ رہے ہیں۔ یہ منظر جسے اس انداز سے پیش کیا گیا ہے ۔ یہاں اس کا اس طرح پیش کرنا ہی مقصود ہے ۔ انداز بیان سے ان اقوام کی تباہی ، بستیوں کا ملبہ بن جانا اور توڑ پھوڑ کا اظہار ہوتا ہے۔

اس قسم کے خوفناک منظر کو پیش کر کے اور الفاظ کے ذریعہ اسکرین پر توڑ پھوڑ دکھا کر حاضرین کو کہا جاتا ہے کہ تمہارا جو رویہ ہے اس کے نتیجے میں کچھ ایسا ہی منظر تمہارے انتظار میں ہے۔

وللکفرین امثالھا (47 : 10) “ ایسے ہی نتائج ان کافروں کے لئے مقدر ہیں ”۔ اس قسم کے نتائج کفار کے انتظار میں کیوں ہیں ؟ اور اہل ایمان کی نصرت اس انداز میں کیوں ہے ؟ یہ اللہ کا دائمی اصول ہے۔