Anda sedang membaca tafsir untuk kelompok ayat dari 26:181 hingga 26:183
۞ اوفوا الكيل ولا تكونوا من المخسرين ١٨١ وزنوا بالقسطاس المستقيم ١٨٢ ولا تبخسوا الناس اشياءهم ولا تعثوا في الارض مفسدين ١٨٣
۞ أَوْفُوا۟ ٱلْكَيْلَ وَلَا تَكُونُوا۟ مِنَ ٱلْمُخْسِرِينَ ١٨١ وَزِنُوا۟ بِٱلْقِسْطَاسِ ٱلْمُسْتَقِيمِ ١٨٢ وَلَا تَبْخَسُوا۟ ٱلنَّاسَ أَشْيَآءَهُمْ وَلَا تَعْثَوْا۟ فِى ٱلْأَرْضِ مُفْسِدِينَ ١٨٣
اَوْفُوا
الْكَیْلَ
وَلَا
تَكُوْنُوْا
مِنَ
الْمُخْسِرِیْنَ
۟ۚ
وَزِنُوْا
بِالْقِسْطَاسِ
الْمُسْتَقِیْمِ
۟ۚ
وَلَا
تَبْخَسُوا
النَّاسَ
اَشْیَآءَهُمْ
وَلَا
تَعْثَوْا
فِی
الْاَرْضِ
مُفْسِدِیْنَ
۟ۚ
3

او فوا الکیل ……منسدین (182)

جس طرح سورت اعراف اور ہود میں تفصیلات دی گئی ہیں کہ یہ لوگ ناپ اور تول میں مطلف تھے۔ یہ لوگ لیتے وقت جبراً لوگوں سے زیادہ لیتے تھے اور دیتے وقت یہ جبریا انکل سے کم دیتے تھے۔ لیتے وقت کم قیمت دیتے تھے اور دیتے وقت بہت مہنگے داموں فروخت کرتے تھ۔ معلوم ہوتا ہے کہ ان لوگوں کی بستی کسی ایسے تجارتی شاہراہ پر تھی۔ جہا سے قافلے گزرتے تھے۔ یہ لوگ ان تجارتی قافلوں پر اپنی مرضی نافذ کرتے تھے۔ ان کے رسول ان کو یہ تعیم دیتے تھے کہ عدل اور انصاف کے ساتھ معاملہ کرو ، کیونکہ صاف اور سھترے عقیدے کا لازمی تقاضا ہے کہ معاملات میں بھی اچھائی اختیار کرو۔ یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ اچھا عقیدہ اچھا عمل اختیار کرنے کا حکم نہ دے اور حق انصاف اور عدل کے بارے میں نظریہ خاموش ہوجائے ۔

اب حضرت شعیہ (علیہ السلام) ان کے دلوں میں تقویٰ اور خدا خوفی کا جوش پیدا کرتے ہیں۔ وہ ان کو یاد دلاتے ہیں کہ ایک ذات ایسی ہے جس نے تمہیں پیدا کیا ہے۔ یہ ذات تمام نسلوں کی پیدا کرنے والی ہے۔