قال يا قوم ارايتم ان كنت على بينة من ربي واتاني منه رحمة فمن ينصرني من الله ان عصيته فما تزيدونني غير تخسير ٦٣
قَالَ يَـٰقَوْمِ أَرَءَيْتُمْ إِن كُنتُ عَلَىٰ بَيِّنَةٍۢ مِّن رَّبِّى وَءَاتَىٰنِى مِنْهُ رَحْمَةًۭ فَمَن يَنصُرُنِى مِنَ ٱللَّهِ إِنْ عَصَيْتُهُۥ ۖ فَمَا تَزِيدُونَنِى غَيْرَ تَخْسِيرٍۢ ٦٣
قَالَ
یٰقَوْمِ
اَرَءَیْتُمْ
اِنْ
كُنْتُ
عَلٰی
بَیِّنَةٍ
مِّنْ
رَّبِّیْ
وَاٰتٰىنِیْ
مِنْهُ
رَحْمَةً
فَمَنْ
یَّنْصُرُنِیْ
مِنَ
اللّٰهِ
اِنْ
عَصَیْتُهٗ ۫
فَمَا
تَزِیْدُوْنَنِیْ
غَیْرَ
تَخْسِیْرٍ
۟
3

اے میری قوم ، تمہارا کیا خیال ہے ؟ میں تو اپنے نفس میں اپنے رب کی حقیقت کو واضح طور پر پاتا ہوں اور یہ ربانی حقیقت مجھے صاف صاف بتاتی ہے کہ جس راہ پر میں چل رہا ہوں وہ بالکل واضح اور حقیقی ہے ، پھر اس پر مزید فضل مجھ پر یہ ہوا ہے کہ اللہ نے مجھے منصب رسالت کے لیے منتخب فرمایا ہے۔ اور اللہ نے مجھے وہ صلاحتیں دی ہیں جو اس منصب کے لیے ضروری ہیں ، اگر ان حقائق کو جانتے ہوئے بھی میں اللہ کی نافرمانی کروں اور تبلیغ دین میں قصور کا ارتکاب کروں تو میری مدد کون کرے گا ؟ کیا میں تمہاری امیدوں کا پاس رکھوں یا اپنی نجات کی فکر کروں ؟ ایسا ہر گز نہیں ہو سکتا کہ میں اپنے انجام کو محض اس لیے داؤ پر لگا دوں کہ تمہاری امیدیں پوری ہوں۔

فَمَنْ يَنْصُرُنِي مِنَ اللَّهِ إِنْ عَصَيْتُهُ فَمَا تَزِيدُونَنِي غَيْرَ تَخْسِيرٍ (63) “ تو اس کے بعد اللہ کی پکڑ سے مجھے کون بچائے گا ، اگر میں اس کی نافرمانی کروں ؟ تم میرے کس کام آسکتے ہو ، سوائے اس کے کہ مجھے اور زیادہ خسارے میں ڈال دو ”۔ اگر میں تمہاری آرزوؤں کا خیال رکھوں تو میں عظیم خسارے میں مبتلا ہوجاؤں گا۔ میں اللہ کے غضب کا مستحق ہوجاؤں گا۔ اور منصب رسالت سے معزول کردیا جاؤں گا۔ دنیا میں بھی شرمندگی ہوگی اور آخرت میں بھی اللہ کے عذاب سے نہ بچ سکوں گا۔ اور یہ ایک عظیم اور مسلسل خسارہ ہوگا۔ چناچہ یہ تباہ کن اور ناقابل برداشت گھاٹا ہوگا۔