۞ والى ثمود اخاهم صالحا قال يا قوم اعبدوا الله ما لكم من الاه غيره هو انشاكم من الارض واستعمركم فيها فاستغفروه ثم توبوا اليه ان ربي قريب مجيب ٦١
۞ وَإِلَىٰ ثَمُودَ أَخَاهُمْ صَـٰلِحًۭا ۚ قَالَ يَـٰقَوْمِ ٱعْبُدُوا۟ ٱللَّهَ مَا لَكُم مِّنْ إِلَـٰهٍ غَيْرُهُۥ ۖ هُوَ أَنشَأَكُم مِّنَ ٱلْأَرْضِ وَٱسْتَعْمَرَكُمْ فِيهَا فَٱسْتَغْفِرُوهُ ثُمَّ تُوبُوٓا۟ إِلَيْهِ ۚ إِنَّ رَبِّى قَرِيبٌۭ مُّجِيبٌۭ ٦١
وَاِلٰی
ثَمُوْدَ
اَخَاهُمْ
صٰلِحًا ۘ
قَالَ
یٰقَوْمِ
اعْبُدُوا
اللّٰهَ
مَا
لَكُمْ
مِّنْ
اِلٰهٍ
غَیْرُهٗ ؕ
هُوَ
اَنْشَاَكُمْ
مِّنَ
الْاَرْضِ
وَاسْتَعْمَرَكُمْ
فِیْهَا
فَاسْتَغْفِرُوْهُ
ثُمَّ
تُوْبُوْۤا
اِلَیْهِ ؕ
اِنَّ
رَبِّیْ
قَرِیْبٌ
مُّجِیْبٌ
۟
3

لیکن ان لوگوں کے دل اس قدر مسخ ہوگئے تھے ، اس قدر بگڑ گئے تھے ، اور ان کی ماہیت اس قدر بدل گئی تھی کہ وہ اس کلام کے کمال و جمال کو سمجھنے سے عاجز تھے ، وہ اس کلام کی جلالت قدر اور بلند تصورات و نظریات کے ادراک سے قاصر تھے۔ یہ کلام کس قدر نرم اور تشفی بخش ہے ، کس قدر صاف اور روشن ہے ، لیکن ان پر اس کا کوئی اثر نہیں ہوتا۔ وہ اس کو سن کر کس قدر نا موافق رد عمل کا اظہار کرتے ہیں ، ذرا سنئے اور غور کیجئے :