فاستفتهم اهم اشد خلقا ام من خلقنا انا خلقناهم من طين لازب ١١
فَٱسْتَفْتِهِمْ أَهُمْ أَشَدُّ خَلْقًا أَم مَّنْ خَلَقْنَآ ۚ إِنَّا خَلَقْنَـٰهُم مِّن طِينٍۢ لَّازِبٍۭ ١١
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
۳

فاستفتھم اھم ۔۔۔۔۔ اباؤنا الاولون (11 – 17)

ذرا ان سے پوچھو کہ تم مانتے ہو کہ ملائکہ ، سماوات ، زمین ، ان کے درمیان فضائیں ، شیاطین ، ستارے اور شہاب ثاقب سب اللہ کی مخلوق ہیں۔ تو کیا تمہاری تخلیق زیادہ مشکل ہے یا اللہ کے ان جہانوں کی تخلیق ؟

اس سوال کے بعد ان کے جواب کا انتظار ہی نہیں کیا جاتا کیونکہ جواب تو ظاہر ہے ۔ یہ سوال تو محض سرزنش کے لیے کیا گیا ہے اور ان کی غباوت پر تعجب کے اظہار کے لیے کیا گیا ہے۔ اس لیے کیا گیا ہے کہ یہ لوگ حددرجہ غافل اور حیران کن حد تک نافہم نہیں۔ چناچہ ان کے سامنے یہ حقیقت رکھی جاتی ہے کہ آغاز میں تمہیں ایک لیس دار گارے سے بنایا گیا ہے۔ اور یہ گارا اسی زمین سے لیا گیا ہے۔ جو خلائق میں سے ایک ہے۔

انا خلقنھم من طین لازب (37: 11) ” ہم نے انہیں لیس دار گارے سے پیدا کیا ہے “۔ لہٰذا یہ لوگ پیدائش کے اعتبار سے کوئی زیادہ دشوار نہیں ہیں اور نہ ان کی تخلیق مشکل ہے۔ لہٰذا ان کا موقف عجیب ہے کہ اپنی حماقتوں کو نہیں سمجھتے۔ الٹا اللہ کی آیات کے ساتھ مذاق کرتے ہیں ۔ ان کو بعث بعد الموت کی جواب دہی سے ڈرایا جاتا ہے اور یہ اسے مذاق سمجھتے ہیں۔ ان کی یہی حماقت ہے جس پر حضور اکرم ﷺ کو تعجب ہوتا ہے اور یہ لوگ ہیں کہ اپنی روش پر چل رہے ہیں۔