واصنع الفلك باعيننا ووحينا ولا تخاطبني في الذين ظلموا انهم مغرقون ٣٧
وَٱصْنَعِ ٱلْفُلْكَ بِأَعْيُنِنَا وَوَحْيِنَا وَلَا تُخَـٰطِبْنِى فِى ٱلَّذِينَ ظَلَمُوٓا۟ ۚ إِنَّهُم مُّغْرَقُونَ ٣٧
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
3

وَاصْنَعِ الْفُلْكَ بِاَعْيُنِنَا وَوَحْيِنَا : " اور ہماری نگرانی میں ہماری وحی کے مطابق ایک کشتی بنانی شروع کردو "۔ ہماری مرضی اور ہدایات کے مطابق۔

وَلَا تُخَاطِبْنِيْ فِي الَّذِيْنَ ظَلَمُوْا ۚ اِنَّهُمْ مُّغْرَقُوْنَ : " اور دیکھو جن لوگوں نے ظلم کیا ہے ان کے حق میں مجھ سے کوئی سفارش نہ کرنا ، یہ سارے کے سارے اب ڈوبنے والے ہیں "

ان کے بارے میں فیصلہ ہوچکا ہے اور ان کا انجام اب متعین ہوچکا ہے۔ لہذا اب آپ ایسے لوگوں کے بارے میں مجھ سے بات نہ کریں۔ نہ ان کی ہدایات کے لیے دعاٗ کریں اور نہ ہی بد دعا کیونکہ دوسری جگہ قرآن مجید میں یہ ٓیا ہے کہ حضرت نوح نے ان کے خلاف بد دعا فرمائی۔ لہذا یہ معلوم ہوتا ہے کہ وہ مایوسی اس کے بعد تھی۔ جب فیصلہ ہوچکا تو اللہ کے ساتھ خطاب ممنوع ہوگیا