فهل عسيتم ان توليتم ان تفسدوا في الارض وتقطعوا ارحامكم ٢٢
فَهَلْ عَسَيْتُمْ إِن تَوَلَّيْتُمْ أَن تُفْسِدُوا۟ فِى ٱلْأَرْضِ وَتُقَطِّعُوٓا۟ أَرْحَامَكُمْ ٢٢
فَهَلْ
عَسَیْتُمْ
اِنْ
تَوَلَّیْتُمْ
اَنْ
تُفْسِدُوْا
فِی
الْاَرْضِ
وَتُقَطِّعُوْۤا
اَرْحَامَكُمْ
۟

فھل عسیتم ۔۔۔۔۔ ارحامکم (47 : 22) “ اب کیا تم لوگوں سے اس کے سوا اور کیا توقع کی جاسکتی ہے کہ تم الٹے منہ پھرو گے تو زمین میں پھر فساد برپا کرو گے اور آپس میں ایک دوسرے کے گلے کاٹو گے ”۔ یعنی تم سے تو یہی توقع ہے۔ ذرا سابقہ حالات کی روشنی میں دیکھو کہ اگر اسلام سے منہ موڑو گے تو سابقہ حالت کی طرف لوٹ کر ایک دوسرے کے اور اپنے ہی بھائیوں کے گلے کاٹو گے جس طرح اسلام سے قبل تھے۔ اسلام سے روگردانی سے ڈرانے کے بعد یہ کہا جاتا ہے کہ ان لوگوں کی حقیقی صورت حال کیا ہے ، اگر یہ اپنی موجودہ پوزیشن پر ہی ڈٹے رہے جس طرح کہ نظر آتا ہے۔