37:64 37:65 আয়াতের গ্রুপের জন্য একটি তাফসির পড়ছেন
انها شجرة تخرج في اصل الجحيم ٦٤ طلعها كانه رءوس الشياطين ٦٥
إِنَّهَا شَجَرَةٌۭ تَخْرُجُ فِىٓ أَصْلِ ٱلْجَحِيمِ ٦٤ طَلْعُهَا كَأَنَّهُۥ رُءُوسُ ٱلشَّيَـٰطِينِ ٦٥
اِنَّهَا
شَجَرَةٌ
تَخْرُجُ
فِیْۤ
اَصْلِ
الْجَحِیْمِ
۟ۙ
طَلْعُهَا
كَاَنَّهٗ
رُءُوْسُ
الشَّیٰطِیْنِ
۟

انھا شجرۃ۔۔۔۔۔ الشیطین (37: 64-65) ” ۔ “۔ اور لوگ شیطانوں کے سروں کو نہیں جانتے ۔ لہٰذا ان کی سمجھ میں کیا ۔۔۔َ ؟ یہ دراصل ایک خوفناک صورت حال ہے ۔ اس کا محض تصور ہی خوفناک ہے ۔ چہ جائیکہ وہ اسے کھائیں گے اور اس سے اپنے پیٹ بھریں گے ۔

اللہ نے اس درخت کو ظالموں کے لیے ایک آزمائش بنادیا ہے وہ زقوم کا نام سنتے تھے تو اس کے بارے میں مذاق کرتے تھے کہ کس طرح یہ درخت جہنم میں اگ سکے گا ۔ کیا جلے گا نہیں ؟ بعض لوگوں نے کہا ، مثلاً ابوجہل ابن ہشام نے نہایت ہی مزاجیہ انداز میں ” اے اہل قریش تمہیں معلوم ہے کہ زقوم کا درخت کیا ہے ؟ محمد تمہیں اس سے ڈراتا ہے تو انہوں نے کہا : ہمیں تو معلوم نہیں ۔ اس نے کہا یہ یثرب کے عمدہ کھجور اور مکھن ہوگا اور اگر یہ ہمیں دستیاب ہواتو ہم اسے ضرور نگل جائیں گے “۔ لیکن اسے کیا معلوم کہ یہ زقوم کا درخت ایک دوسری چیز ہے جسے انسانوں نے نہیں چکھا۔ اور نہ جانتے ہیں ۔