یہاں سیاق کلام میں اس قصے کو یہات ہی اجمال کے ساھ لایا جاتا ہے کیونکہ یہاں مقصد یہ ہے کہ قصے کا آخری منظری بیش کیا جائے چناچہ نظر آتا ہے کہ آگے آگے فرعون ہے اور اس کے پیچھے پیچھے اس کی قوم ہے۔ یہ لوگ اللہ کی حکم عدولی کر کے فرعون کے احکام مانتے ہیں۔ اس کے باوجود کہ فرعون کا حکم جاہلانہ ، احمقانہ اور بودا ہے۔
فَاتَّبَعُوا أَمْرَ فِرْعَوْنَ وَمَا أَمْرُ فِرْعَوْنَ بِرَشِيدٍ (97)
یہ لوگ جو ن کہ فرعون کے متبعین تھے اس لیے یہ اس کے پیچھے چلیں گے۔ جس طرح یہاں وہ بغیر سوچ اور تدبیر کے اس کے پیچھے چلتے تھے۔ اپنی رائے اور عقل کو استعمال نہ کرتے تھے۔ وہ ذلت پر راضی تھے ، اور اللہ نے عقل ، ارادہ اور آزادی کی جو نعمتیں ان کو دی تھیں ، انہوں نے ان نعمتوں سے دست برداری اختیار کرلی تھی ، اور غلام کی راہ اختیار کرلی تھی ، یہی وجہ ہے کہ قیامت کے دن یہ عذاب میں بھی اسی غلامہ شان سے داخل ہوں گے۔ فرعون وہاں بھی ان کا لیڈر ہو کا۔