ويا قوم هاذه ناقة الله لكم اية فذروها تاكل في ارض الله ولا تمسوها بسوء فياخذكم عذاب قريب ٦٤
وَيَـٰقَوْمِ هَـٰذِهِۦ نَاقَةُ ٱللَّهِ لَكُمْ ءَايَةًۭ فَذَرُوهَا تَأْكُلْ فِىٓ أَرْضِ ٱللَّهِ وَلَا تَمَسُّوهَا بِسُوٓءٍۢ فَيَأْخُذَكُمْ عَذَابٌۭ قَرِيبٌۭ ٦٤
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
٣

یہاں یہ قرآن کریم نے اس ناقہ کے بارے میں تفصیلات نہیں دی ہیں جو ان کے لیے ایک نشانی اور علامت تھی۔ لیکن اس ناقہ کے بارے میں یہ کہا گیا ہے کہ یہ “ اللہ کی اونٹنی ” ہے۔ اور تمہارے لیے یہ ایک نشانی ہے ان ریمارکس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ ایک ممتاز اونٹنی تھی اور وہ جانتے تھے کہ یہ ان کے لیے اللہ کی جانب سے ایک نشانی ہے۔ بس ہم بھی یہاں صرف ان باتوں پر اکتفاء کرتے اور ناقہ صالح (علیہ السلام) کے بارے میں اسرائیلی روایات کے مطابق مفسرین نے جو رطب ویابس جمع کی ہیں ان کے ساتھ یہاں تعرض نہیں کرتے۔

هَذِهِ نَاقَةُ اللَّهِ لَكُمْ آيَةً فَذَرُوهَا تَأْكُلْ فِي أَرْضِ اللَّهِ وَلا تَمَسُّوهَا بِسُوءٍ (64 : 11) “ دیکھو یہ اللہ کی اونٹنی تمہارے لیے ایک نشانی ہے۔ اسے خدا کی زمین پر چرنے کے لیے آزاد چھوڑ دو ۔ اس سے ذرا تعرض نہ کرنا۔ ” ورنہ اللہ تمہیں بہت جلد پکڑ لے گا اور عذاب دے گا۔ عبارت میں فاء تعجیل کے لیے ہے۔

فَيَأْخُذَكُمْ عَذَابٌ قَرِيبٌ (11 : 64) ورنہ کچھ زیادہ دیر نہ گزرے گی کہ تم پر خدا کا عذاب آجائے گا ”۔ یعنی تم اللہ کی شدید پکڑ میں آجاؤ گے ، انداز تعبیر محض عذاب ہونے یا عذاب کے نزول سے کہیں زیادہ کسی چیز کو ظاہر کر رہا ہے۔