یہ ہے منظر قیام قیامت کا ، اس دن زمین نہایت شدت سے ہلا ماری جائے گی اور ایک شدید زلزلہ برپا ہوگا اور زمین کے پیٹ کے اندر جو کچھ ہوگا ، وہ اسے باہر پھینک دے گی اور اس نے ایک طویل عرصے سے انسانی جانوں کا جو بوجھ اٹھارکھا ہوگا ، یا اس کے اندر جو معدنیات ہوں گے وہ ان کو اٹھاکر باہر پھینک دے گی ، گویا اس بوجھ کو باہر پھینک کر وہ ہلکی ہوجائے گی۔
یہ ایک ایسی تصویر کشی ہے کہ سننے والے اپنے پاﺅں کے نیچے کھڑی ہر چیز متزلزل محسوس کرتے ہیں کہ وہ ڈگمگا رہے ہیں ، لڑکھڑا رہے ہیں ، ان کے قدموں کے نیچے سے زمین کانپ رہی ہے ، دوڑرہی ہے ، یہ ایک ایسا منظر ہے جس کو دیکھ کر انسان تمام امور سے قطع تعلق کرلیتا ہے جو انسان کو اس زمین سے وابستہ کرتے ہیں اور جن کے بارے میں انسان یہ خیال کرتا ہے کہ وہ ثابت اور باقی ہیں۔ قرآن اس قسم کے مناظر سے جو اثرات قائم کرنا چاہتا ہے۔ یہ ان میں سے پہلا اثر ہے اور قرآن کی یہ منفرد آیات سنتے ہی یہ اثر انسان کے اعصاب تک منتقل ہوجاتا ہے۔ یہ تاثر اس وقت اور گہرا ہوجاتا ہے ۔ جب قرآن کریم میدان حشر میں کھڑے اس ” انسان “ کے تاثرات قلم بند کرتا ہے ، جو ان مناظر کو دیکھ رہا ہوگا۔