۞ قالت الاعراب امنا قل لم تومنوا ولاكن قولوا اسلمنا ولما يدخل الايمان في قلوبكم وان تطيعوا الله ورسوله لا يلتكم من اعمالكم شييا ان الله غفور رحيم ١٤
۞ قَالَتِ ٱلْأَعْرَابُ ءَامَنَّا ۖ قُل لَّمْ تُؤْمِنُوا۟ وَلَـٰكِن قُولُوٓا۟ أَسْلَمْنَا وَلَمَّا يَدْخُلِ ٱلْإِيمَـٰنُ فِى قُلُوبِكُمْ ۖ وَإِن تُطِيعُوا۟ ٱللَّهَ وَرَسُولَهُۥ لَا يَلِتْكُم مِّنْ أَعْمَـٰلِكُمْ شَيْـًٔا ۚ إِنَّ ٱللَّهَ غَفُورٌۭ رَّحِيمٌ ١٤
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
3

اب اس سورت کے آخر میں ایمان کی حقیقت اور اس کی اہمیت بیان کی جاتی ہے اور یہ ان اعراب کی تردید میں بیان کی جاتی ہے جو ایمان کا دعویٰ کرتے تھے۔ یہ لوگ رسول اللہ ﷺ پر احسان جتلاتے تھے کہ ہم مسلمان ہوئے ہیں اور اس احسان کے بارے میں نہ سوچتے تھے کہ اللہ نے دعوت ایمان بھیج کر لوگوں پر کس قدر احسان کیا۔

یہ آیات بنو اسد کے دیہاتی مسلمانوں کے بارے میں نازل ہوئیں۔ انہوں نے کہا کہ ہم “ ایمان لائے ” ہیں۔ یہ انہوں نے اس وقت کہا جب وہ اسلام میں داخل ہو رہے تھے۔ انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے یہ بات بھی کہی کہ حضور ﷺ ہم نے تو اسلام قبول کرلیا لیکن آپ ﷺ کے ساتھ ہم کبھی نہیں لڑے جبکہ دوسرے عربوں نے آپ کے ساتھ لڑائیاں لڑیں تو اللہ نے ان کو بتایا کہ تمہارے ذہنوں کے اندر جو بات بیٹھی ہوئی ہے ، وہ غلط ہے کہ تم نے اسلام قبول کرلیا۔ اسلامی حکومت کے سامنے سر تسلیم خم کردیا ہے ، لیکن ابھی تمہارے دل مرتبہ ایمان تک نہیں پہنچے۔ اس سے معلوم ہوا کہ حقیقت ایمان ابھی ان کے دلوں میں نہیں بیٹھی تھی۔ اور ان کی ارواح نے ابھی جام ایمان نوش نہیں کیا تھا۔

قل لم تؤمنوا ولکن ۔۔۔۔۔۔ فی قلوبکم (49 : 14) “ ان سے کہو ، تم ایمان نہیں لائے بلکہ یوں کہو کہ ہم مطیع ہوگئے۔ ایمان ابھی تمہارے دلوں میں داخل نہیں ہوا ہے ”۔

لیکن اس کے باوجود اللہ نے فرمایا کہ تمہارے اعمال پر تمہیں پوری پوری جزاء دی جائے گی اور تمہارے اعمال کا کوئی حصہ ضائع نہ ہوگا۔ یہ اسلام ابھی تک دلوں کے اندر داخل ہو کر قلوب کے اندر نہیں پہنچا کہ وہ پختہ اور قابل اطمینان ایمان بن جائے ، یہ اس بات کے لئے کافی ہے کہ ان اچھے اعمال پر انہیں جزائے خیروی جائے اور وہ کفار کے اعمال کی طرح ضائع نہ ہوں۔ اور اللہ کے ہاں ایسے مسلمانوں کے اجر میں کمی نہ ہوگی جب تک وہ مطیع فرمان اور سر تسلیم خم کرنے والے رہتے ہیں۔

وان تطیعوا اللہ ورسولہ لا یلتکم من اعمالکم شیئا (49 : 14) “ اگر تم اللہ اور اس کے رسول کی فرمان برداری اختیار کرلو تو وہ تمہارے اعمال کے اجر میں کوئی کمی نہ کرے ”۔ کیونکہ اللہ بہت ہی رحیم و کریم ہے۔ وہ اپنے بندوں سے اسلام اور ایمان کی راہ میں پہلا قدم ہی قبول کرتا ہے۔ اطاعت اور تسلیم ہی سے راضی ہوجاتا ہے اور اس کے بعد دل میں خود بخود ایمان اور اطمینان آجاتا ہے۔

ان اللہ غفور رحیم (49 : 14) “ بیشک اللہ درگزر کرنے والا اور رحیم ہے ”۔ اس کے بعد حقیقی ایمان بتا دیا۔