undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
3

آیت 28 کَیْفَ تَکْفُرُوْنَ باللّٰہِ وَکُنْتُمْ اَمْوَاتًا فَاَحْیَاکُمْ ج ثُمَّ یُمِیْتُکُمْ ثُمَّ یُحْیِیْکُمْ ثُمَّ اِلَیْہِ تُرْجَعُوْنَ اس مقام پر ایک بڑی گہری حکمت اور فلسفے کی بات بیان کی گئی ہے جو آج نگاہوں سے بالکل اوجھل ہوچکی ہے۔ وہ یہ کہ ہم دنیا میں آنے سے پہلے مردہ تھے کُنْتُمْ اَمْوَاتًا۔ اس کے کیا معنی ہیں ؟یہ مضمون سورة غافر؍سورۃ المؤمن میں زیادہ وضاحت سے آیا ہے ‘ جو سورة البقرۃ سے پہلے نازل ہوچکی تھی۔ لہٰذا یہاں اجمالی تذکرہ ہے۔ وہاں اہل جہنم کا قول بایں الفاظ نقل ہوا ہے : رَبَّنَا اَمَتَّنَا اثْنَتَیْنِ وَاَحْیَیْتَنَا اثْنَتَیْنِ فَاعْتَرَفْنَا بِذُنُوْبِنَا فَھَلْ اِلٰی خُرُوْجٍ مِّنْ سَبِیْلٍ ”اے ہمارے ربّ ! تو نے دو مرتبہ ہم پر موت وارد کی اور دو مرتبہ ہمیں زندہ کیا ‘ اب ہم نے اپنے گناہوں کا اعتراف کرلیا ہے ‘ تو اب یہاں سے نکلنے کا بھی کوئی راستہ ہے ؟“ اس سے یہ حقیقت واضح ہوئی کہ انسان کی تخلیقِ اوّل عالم ارواح میں صرف ارواح کی حیثیت سے ہوئی تھی۔ احادیث میں الفاظ وارد ہوئے ہیں : اَلْاَرْوَاحُ جُنُوْدٌ مُجَنَّدَۃٌ [ متفق علیہ ] یعنی ارواح جمع شدہ لشکروں کی صورت میں تھیں۔ ان ارواح سے وہ عہد لیا گیا جو ”عہد الست“ کہلاتا ہے۔ پھر انہیں سلا دیا گیا۔ یہ گویا پہلی موت تھی جو ہم گزار آئے ہیں۔ آپ جانتے ہیں کہ مردہ معدوم نہیں ہوتا ‘ بےجان ہوتا ہے ‘ ایک طرح سے سویا ہوا ہوتا ہے۔ قرآن حکیم میں موت اور نیند کو باہم تشبیہہ دی گئی ہے۔ پھر دنیا میں عالم خلق کا مرحلہ آیا ‘ جس میں تناسل کے ذریعے سے اجساد انسانیہ کی تخلیق ہوتی ہے اور ان میں ارواح پھونکی جاتی ہیں۔ حضرت عبداللہ بن مسعود رض سے مروی متفق علیہ حدیث کے مطابق رحم مادر میں جنین جب چار ماہ کا ہوجاتا ہے تو اس میں وہ روح لا کر پھونک دی جاتی ہے۔ یہ گویا پہلی مرتبہ کا زندہ کیا جانا ہوگیا۔ ہم اس دنیا میں اپنے جسد کے ساتھ زندہ ہوگئے ‘ ہمیں پہلی موت کی نیند سے جگادیا گیا۔ اب ہمیں جو موت آئے گی وہ ہماری دوسری موت ہوگی اور اس کے نتیجے میں ہمارا جسد وہیں چلا جائے گا جہاں سے آیا تھا یعنی مٹی میں اور ہماری روح بھی جہاں سے آئی تھی وہیں واپس چلی جائے گی۔ یہ فلسفہ و حکمت قرآنی کا بہت گہرا نکتہ ہے۔