آپ 70:26 سے 70:31 آیات کے گروپ کی تفسیر پڑھ رہے ہیں
والذين يصدقون بيوم الدين ٢٦ والذين هم من عذاب ربهم مشفقون ٢٧ ان عذاب ربهم غير مامون ٢٨ والذين هم لفروجهم حافظون ٢٩ الا على ازواجهم او ما ملكت ايمانهم فانهم غير ملومين ٣٠ فمن ابتغى وراء ذالك فاولايك هم العادون ٣١
وَٱلَّذِينَ يُصَدِّقُونَ بِيَوْمِ ٱلدِّينِ ٢٦ وَٱلَّذِينَ هُم مِّنْ عَذَابِ رَبِّهِم مُّشْفِقُونَ ٢٧ إِنَّ عَذَابَ رَبِّهِمْ غَيْرُ مَأْمُونٍۢ ٢٨ وَٱلَّذِينَ هُمْ لِفُرُوجِهِمْ حَـٰفِظُونَ ٢٩ إِلَّا عَلَىٰٓ أَزْوَٰجِهِمْ أَوْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَـٰنُهُمْ فَإِنَّهُمْ غَيْرُ مَلُومِينَ ٣٠ فَمَنِ ٱبْتَغَىٰ وَرَآءَ ذَٰلِكَ فَأُو۟لَـٰٓئِكَ هُمُ ٱلْعَادُونَ ٣١
وَالَّذِیْنَ
یُصَدِّقُوْنَ
بِیَوْمِ
الدِّیْنِ
۟
وَالَّذِیْنَ
هُمْ
مِّنْ
عَذَابِ
رَبِّهِمْ
مُّشْفِقُوْنَ
۟ۚ
اِنَّ
عَذَابَ
رَبِّهِمْ
غَیْرُ
مَاْمُوْنٍ
۟
وَالَّذِیْنَ
هُمْ
لِفُرُوْجِهِمْ
حٰفِظُوْنَ
۟ۙ
اِلَّا
عَلٰۤی
اَزْوَاجِهِمْ
اَوْ
مَا
مَلَكَتْ
اَیْمَانُهُمْ
فَاِنَّهُمْ
غَیْرُ
مَلُوْمِیْنَ
۟ۚ
فَمَنِ
ابْتَغٰی
وَرَآءَ
ذٰلِكَ
فَاُولٰٓىِٕكَ
هُمُ
الْعٰدُوْنَ
۟ۚ
3

آیت 26{ وَالَّذِیْنَ یُصَدِّقُوْنَ بِیَوْمِ الدِّیْنِ۔ } ”اور جو فیصلے کے دن کی تصدیق کرتے ہیں۔“ زیر مطالعہ آیات کی سورة المومنون کی ابتدائی آیات کے ساتھ مناسبت کے حوالے سے اس آیت کا تعلق سورة المومنون کی اس آیت سے ہے : { وَالَّذِیْنَ ہُمْ عَنِ اللَّغْوِ مُعْرِضُوْنَ۔ } ”اور جو لغو باتوں سے اعراض کرنے والے ہیں“۔ گویا زیر مطالعہ آیت سورة المومنون کی مذکورہ آیت کی وضاحت کر رہی ہے۔ اللہ تعالیٰ کے نیک بندے لغویات سے اعراض کیوں کرتے ہیں ؟ اس لیے کہ وہ قیامت اور جزا و سزا کے دن پر پختہ یقین رکھتے ہیں۔ ظاہر ہے جو شخص آخرت پر یقین رکھتا ہے اس کے لیے تو اس زندگی کا ایک ایک لمحہ امر کبھی نہ مرنے والا ‘ دائمی ہے۔ بظاہر تو انسان کی یہ زندگی فانی finite ہے ‘ لیکن درحقیقت بالقوہ potentially یہ دائمی infinite ہے۔ اس لیے کہ اس فانی زندگی کے اعمال کا نتیجہ آخرت کی دوامی زندگی میں نکلے گا۔ دنیا میں انسان اچھے برے جو اعمال بھی کمائے گا ‘ ان اعمال کے اثرات و نتائج آخرت کی زندگی میں ہمیشہ ہمیش کے لیے ہوں گے۔ چناچہ آخرت کی دوامی زندگی کے لیے جو پونجی انسان کو درکار ہے وہ تو دنیوی زندگی کے ”اوقات“ میں ہی کمائی جاسکتی ہے۔ سورة العصر کی پہلی آیت میں تیزی سے گزرتے ہوئے وقت کی قسم کے پردے میں بھی دراصل یہی فلسفہ بیان ہوا ہے۔ گویا انسان کا اصل سرمایہ اس کی مہلت ِعمر یعنی زندگی کے وہ قیمتی لمحات ہیں جو تیزی سے اس کے ہاتھ سے نکلے جا رہے ہیں ؎غافل تجھے گھڑیال یہ دیتا ہے منادی گردوں نے گھڑی عمر کی اِک اور گھٹا دی !